عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپسی سائفر کی تحقیقات سے مشروط کردی

25 ستمبر 2022
عمران خان نے کہا کہ میں نے مئی میں خبردار کیا تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے— فائل فوٹو/ عمران خان فیس بک
عمران خان نے کہا کہ میں نے مئی میں خبردار کیا تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے— فائل فوٹو/ عمران خان فیس بک

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ اسی صورت میں واپس لینے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں جب اس مبینہ سازش کی تحقیقات کرائی جائیں جو ان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ بنی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اگر سائفر کے بارے میں تحقیقات شروع کی جائیں تو وہ پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کرائے گئے استعفوں کو واپس لینے پر غور کریں گے۔

امریکا میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید کی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار ڈونلڈ لو سے ملاقات پر مبنی سائفر پی ٹی آئی کے اس دعوے کا مرکز ہے کہ امریکا نے پاکستان میں موجود عناصر کے ساتھ مل کر عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کی سازش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: دفتر خارجہ نے سائفر کو وزیراعظم، وزیر خارجہ سے پوشیدہ رکھنے کا دعویٰ مسترد کردیا

خیال رہے کہ عمران خان کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال پی ٹی آئی کو اسمبلی واپس جاکر کردار ادا کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔

صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان نے مزید کہا کہ اگر ان کی حکومت کو بے دخل نہ کیا جاتا تو وہ امریکا سے بات کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔

سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی متوقع واپسی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اسحٰق ڈار کو معاشی صورتحال پر قابو پانے کے لیے بلایا جا رہا ہے حالانکہ جب اسحٰق ڈار پاکستان سے باہر گئے تو ملک دیوالیہ ہونے کے نزدیک تھا۔

مزید پڑھیں: یہ سن کر بہت تکلیف ہوئی کہ سپریم کورٹ نے کہا سائفر پر تفتیش نہیں ہوئی، عمران خان

سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور اقتصادی امور کے ترجمان مزمل اسلم کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے یاددہانی کروائی کہ انہوں نے مئی میں خبردار کیا تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات رہے تاہم اقتدار کے آخری دنوں میں دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب انہیں طاقتور حلقوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب وہ حکومت میں نہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں