ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا امکان بہت کم ہے لیکن مستقبل قریب میں پاک فوج کی قیادت میں تبدیلی اور دونوں پڑوسی ممالک میں ہونے والے عام انتخابات کے باعث کم از کم ایک سال سے دو برسوں کے دوران دوطرفہ تعلقات معمول پر آنے کے سلسلے میں کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ عالمی تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے زیر اہتمام مسقط میں منعقدہ ایک تقریب میں موجودہ اور سابق سینئر پاکستانی اور بھارتی سفارت کاروں اور دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سیکیورٹی حکام اور سیاست دانوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا بنیادی نکتہ تھا۔

گزشتہ ہفتے کے آخر میں منعقدہ تقریب جو کہ ایک طرح کی ٹریک 1.5 کی طرح کی سرگرمی تھی ، اس تقریب میں ہونے والی گفتگو اور تبادلہ خیال کے دوران ایسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا جو پاک بھارت تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنتے ہیں، کشمیر، دہشت گردی اور تجارت جیسے معمول کے موضوعات کے علاوہ دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے چین اور افغانستان سے متعلق پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا جب کہ یہ ممکنہ طور پر علاقائی سیاست کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تعلقات کی بہتری کے لیے پاکستان اور بھارت دنیا سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟

تقریب میں شریک عہدیدار نے کہا کہ میٹنگ کا مقصد 2 جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کے ممکنہ خطرات اور تعلقات معمول کی سطح پر آنے کے امکانات کے بارے میں بات کرنا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک جن کے تقریباً 2 دہائیوں کے دورا ن بہت کم تعلقات رہے ہیں جب کہ ان تعلقات میں مزید سرد مہری اس وقت سامنے آئی جب کہ اگست 2019 میں بھارت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کا الحاق کیا۔

ڈائیلاگ میں شریک ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں فوری طور پر کسی بڑی پیش رفت کا امکان نہیں ہے جب کہ بھارت اس بات پر مطمئن ہے کہ کوئی بحران نہیں ہے اور ایل او سی پر جنگ بندی ہو ہے۔

جب کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کو ہندوتوا نظریے کے تحت ہندو قوم میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں اور مسلم مخالف جذبات اور پاکستان مخالف بیان بازی کو ہوا دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاک-بھارت تعلقات: 2019 سفارتی اور عسکری محاذ آرائیوں کا سال

بہت سے لوگوں کو تعلقات میں بہتری کی اس وقت امید ہوئی تھی کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اپریل میں نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف کو مبارکباد دی، اس امید کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی تھی کہ شریف خاندان اور ان کی اہم اتحادی پی پی پی جس کے چیئرمین وزیر خارجہ ہیں وہ روایتی طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے زیادہ موزوں رہے ہیں۔

اس کے برعکس عمران خان نے بھارت کے معاملے پر سخت مؤقف رکھا، اس کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

مسقط میٹنگ کے دوران کچھ بھارتی شرکا نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کے مطابق بھارت میں حکمت عملی ساز سمجھتے ہیں کہ پاکستان تبدیلی کے مراحل میں ہے جب کہ نومبر کے آخر نیا آرمی چیف کمان سنبھالے گا اور 2023 میں انتخابات کا امکان ہے، مزید یہ کہ بھارت میں 2024 میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ’پاک بھارت پرامن تعلقات ناگزیرہیں‘، وزیر اعظم شہباز شریف کا بھارتی ہم منصب کو خط

اس لیے ان کا خیال ہے کہ قیام امن کے لیے یہ مناسب وقت نہیں ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے بھارت کے بارے میں نرم رویے کے عوامی تاثر کے برعکس بھارتی شرکا نے کہا کہ وہ موجودہ اور سابق وزیر اعظم کے تحت پاکستان کی بھارت پالیسی میں بہت کم فرق دیکھتے ہیں۔

2023 کے انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اگر عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن جاتے ہیں تو وہ بھارت کے ساتھ بامعنی بات چیت کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔

لہٰذا اس مدت کے دوران بھارتی توجہ تعلقات کو معمول پر لانے کے بجائے موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے پر مرکوز رہے گی۔

ان کے خیال میں اس کے ساتھ ساتھ اسی دوران تجارت کی بحالی ماحول کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

تقریب میں شریک پاکستانی عہدیدار نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بھارت تعلقات کی معمول کے مطابق بحالی پر سنجیدہ نہیں ہے اور وہ دہشت گردی کے الزامات کو مذاکرات اور بات چیت سے فرار کے لیے استعمال کرتا ہے۔

انہوں نے ماضی کے ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں بھارت کو معلومات فراہم کی جس کی بنیاد پر احمد آباد میں عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا لیکن پھر بھی اس کی جانب سے کوئی جوابی تعاون نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں