موسمِ سرما کی آمد قریب، سیلاب متاثرین کی اکثریت خیموں میں سونے پر مجبور

28 ستمبر 2022
6 میں سے ایک خاندان کے پاس سر چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
6 میں سے ایک خاندان کے پاس سر چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک میں بڑے پیمانے پر سیلاب سے متاثر ہونے والے نصف سے زائد (54 فیصد) خاندان باہر، خیموں یا عارضی پناہ گاہوں میں سونے پر مجبور ہیں جو اکثر پلاسٹک کی پتلی چادروں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا، اس تباہی نے تقریباً 36 لاکھ افراد کو بے روزگار کر دیا ہے، جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کا ذریعہ معاش بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں قائم ایک فلاحی ادارے ’سیو دی چلڈرن‘ کے ایک سروے کے مطابق زیادہ تر خاندان اپنے گھر کھو چکے ہیں اور وہ سڑکوں کے کنارے خستہ حالت میں رہ رہے ہیں، پناہ کے لیے کپڑے یا ترپال کے ٹکڑوں کا استعمال کر رہے ہیں۔

تنظیم نے کہا کہ 6 میں سے ایک خاندان کے پاس سر چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے، سروے میں شامل نصف سے زائد لوگوں کی بیت الخلا تک رسائی نہیں اور وہ باہر کھڑے پانی میں رفع حاجت کر رہے ہیں، جس سے ہیضہ اور پیچش جیسی سنگین بیماریاں پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کے لیے فلاحی ادارے کیا کررہے ہیں اور انہیں کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

تنظیم کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ سیلاب نے پانی کی سپلائی کو تباہ کر دیا ہے اور 80 فیصد خاندانوں کے پاس صاف پانی کی کمی کی اطلاع ہے اور بہت سے لوگوں کے پاس آلودہ پانی کے ذرائع سے پینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

پاکستان میں سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر خرم گوندل نے کہا کہ ’پاکستان اس وقت صحت کی ایک بڑی ہنگامی صورتحال کی لپیٹ میں ہے اور ہم ہر روز بچوں کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے مرتا ہوئے دیکھ رہے ہیں، جب تک وہ شیلٹر، خوراک اور پانی کے بغیر باہر سونے پر مجبور رہیں گے چیزیں مزید بگڑتی جائیں گی۔

فلاحی تنظیم نے کہا کہ وہ ان خاندانوں کو خوراک، ہنگامی پناہ گاہ اور طبی امداد سمیت ہنگامی امداد فراہم کررہی ہے جو اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے کچھ اضلاع میں سیلاب کے پانی میں اضافہ ہورہا ہے، اقوام متحدہ

مذکورہ تنظیم سوات اور خیبرپختونخوا میں دو میڈیکل کیمپ چلا رہی ہے جہاں وہ سیلاب سے متعلق بیماریوں میں مبتلا بچوں کو زندگی بچانے والی طبی خدمات فراہم کر رہی ہے۔

بے روزگار افراد

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر ساجد حسین طوری نے بتایا کہ مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے بڑے سیلاب نے تقریباً 36 لاکھ مزدوروں کو بے روزگار کر دیا، جس سے ملک بھر میں 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قدرتی آفت سے ملک بھر کے 84 اضلاع میں دس لاکھ سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں، بچوں سمیت 1,500 سے زیادہ لوگ مرچکے ہیں، مویشی ختم ہو گئے ہیں، 36 لاکھ روزگار ختم ہوگئے اور ہزاروں کلومیٹر سڑکیں اور پل تباہ ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مون سون کی غیر معمولی بارشیں ہوئیں جو کہ معمول سے تقریباً 10 گنا زیادہ تھیں، اس کے نتیجے میں پورے ملک میں بے قابو اور اچانک سیلاب آیا جبکہ لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب سے متاثرہ افراد کی اکثریت ریاستی اداروں کی کارکردگی سے غیر مطمئن

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے مزدور اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اس آفت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن (آئی ایل او) کے نمائندے پیٹر بوویمبو نے کہا کہ ادارہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات، خاص طور پر محنت کش طبقے اور ان کی بحالی کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کے لیے ایک سروے کرے گا۔

ساجد حسین طوری نے کہا کہ آئی ایل او ایک دہائی میں آنے والے بدترین سیلاب کے ردعمل میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے جس نے گھروں، فصلوں، ذریعہ معاش اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور لاکھوں لوگ غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’فی الحال ہم حکومتی ڈیٹا کا استعمال کر رہے ہیں اور اس کے مطابق مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘

تبصرے (0) بند ہیں