دنیا میں 40 فیصد قدرتی آفات جنوبی ایشیا اور ہمالیائی خطے پر اثرانداز

02 اکتوبر 2022
رپورٹ میں نمایاں کیے گئے عوامل قدرتی وسائل کی قلت، پانی کی کمی اور غذائی عدم تحفظ کا سبب بن رہے ہیں— فائل فوٹو: رائٹرز
رپورٹ میں نمایاں کیے گئے عوامل قدرتی وسائل کی قلت، پانی کی کمی اور غذائی عدم تحفظ کا سبب بن رہے ہیں— فائل فوٹو: رائٹرز

ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ جنوبی ایشیا اور ہندوکش-ہمالیہ موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطے ہیں جن پر دنیا بھر میں آنے والی قدرتی آفات کا تقریباً 40 فیصد مرکوز ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 'صنفی مساوات اور موسمیاتی تبدیلی کی تشخیص' کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان علاقوں میں ارضیاتی طور پر کمزور پہاڑ اور ساحلی میدان لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب، خشک سالی اور کھارے پانی کی مداخلت کے سبب خطرے سے دوچار ہیں۔

یہ رپورٹ انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی)، یو این ویمن اور یو این انوائرمنٹ پروگرام (یو این ای پی) نے مشترکہ طور پر جاری کی ہے۔

جنوبی ایشیا اور اور ہندوکش-ہمالیہ خطے میں زراعت، توانائی اور پانی کے شعبوں میں دباؤ کے کلیدی محرکات میں آبادی میں اضافہ، تیزی سے شہروں کے پھیلاؤ، غیر پائیدار زرعی اور صنعتی طریقے، کمزور انتظامی معاملات، ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے پاکستان معاوضہ نہیں، ماحولیاتی انصاف چاہتا ہے‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ عوامل قدرتی وسائل کی قلت، پانی کی کمی اور غذائی عدم تحفظ کا سبب بن رہے ہیں۔

ان علاقوں میں مصنوعی کھاد کا استعمال، فصلوں کی باقیات کو جلانا اور زمین کی کٹائی زرعی اخراج میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

ان دونوں خطوں میں موجود توانائی کے شعبوں میں گیسوں کا اخراج دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کے کُل اخراج کا 82 فیصد ہے اور توانائی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے اس رجحان میں اضافے کی توقع ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان مسائل کو ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی توجہ کے ساتھ پائیدار زرعی طریقوں کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: قدرتی آفات، ایشیا پیسیفک میں 22 کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوئے، رپورٹ

خطے میں پانی کا شعبہ پسماندگی کا شکار ہے، کچھ علاقے پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہیں جبکہ زراعت، توانائی، صنعت اور انسانوں اور مویشیوں کے استعمال کے لیے پانی کی طلب میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

زرعی شعبے کے لیے جز وقتی اور طویل مدتی حل تجویز کرتے ہوئے رپورٹ میں موسمیاتی خطرات کو کم کرنے کے علاوہ اسٹوریج اور پروسیسنگ کے بنیادی انفرااسٹرکچر کے قیام کے لیے پیداوار میں تنوع پر زور دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں توانائی کے شعبے میں وسائل پر خواتین کے کنٹرول میں بہتری کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ وہ قابل تجدید توانائی کے اختیارات سے استفادہ کر سکیں اور انہیں معاش اور فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کر سکیں۔

مزید برآں رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ خواتین اور غریبوں کے لیے پانی تک رسائی کو یقینی بنانے کی پالیسیاں بنائی جانی چاہئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں