کابل: کلاس روم بم دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 43 ہوگئی

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2022
جمعہ کے روز خودکش حملہ آور نے ایجوکیشنل سینٹر کے خواتین سیکشن میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا — فوٹو: اے ایف پی
جمعہ کے روز خودکش حملہ آور نے ایجوکیشنل سینٹر کے خواتین سیکشن میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا — فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے کابل کے ایک تعلیمی ادارے کے کلاس روم میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والی کی تعداد 43 ہوگئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کے روز خودکش حملہ آور نے کاج ہائر ایجوکیشنل سینٹر کے خواتین کے لیے مختص سیکشن میں خود کو دھماکے سے اس وقت اڑا لیا تھا جب شہر کے علاقے دشت برچی میں سیکڑوں طلبہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے امتحان دے رہے تھے۔

اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ دھماکے میں 43 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 83 شہری زخمی ہیں، لڑکیاں اور نوجوان خواتین اس حملے کا سب سے بڑا نشانہ تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: کابل: دھماکے سے ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی، ہزارہ برادری کی خواتین کا ’نسل کشی‘ کےخلاف احتجاج

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا کہ دھماکے کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

تاحال کسی گروپ نے حالیہ مہلک حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی البتہ عسکریت پسند گروپ ’داعش‘ اس سے قبل اس علاقے میں لڑکیوں، اسکولوں اور مساجد کو نشانہ بنانے کے حملوں کا دعویٰ کرچکا ہے، افغانستان میں شیعہ ہزارہ برادری کی بڑی تعداد موجود ہے۔

طالبان حکام نے کہا ہے کہ اس حملے میں اب تک 25 افراد جاں بحق اور 33 شہری زخمی ہوئے ہیں۔

گزشتہ سال افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد مغربی ممالک کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف 2 دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوا تھا، جس کے بعد ملک میں تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی لیکن حالیہ مہینوں کے دوران سیکیورٹی صورتحال دوبارہ ابتر ہونا شروع ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: کابل خود کش دھماکا، ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی

گزشتہ اگست میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان کے لیے سیکیورٹی حساس معاملہ رہا ہے اور سخت گیر حکمراں اپنی حکومت کو چیلنج کرنے والے حملوں کو کم سے کم نقصان دہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے رہے ہیں۔

جمعہ کے روز ہونے والے حملے کے خلاف کابل اور کچھ دوسرے شہروں میں خواتین کی قیادت میں مظاہرے ہوئے، اس موقع پر 50 کے قریب خواتین نے دشت برچی کے اس ہسپتال کے سامنے سے گزرتے ہوئے جہاں حملے کے متعدد متاثرین زیر علاج تھے نعرے لگائے کہ 'ہزارہ برادری کی نسل کشی بند کرو، شیعہ ہونا جرم نہیں'۔

ریلیوں کو طالبان فورسز کی جانب سے منتشر کر دیا گیا، اس دوران ہوائی فائرنگ کی گئی اور مظاہرین پر تشدد بھی کیا گیا۔

مسلم اکثریتی ملک افغانستان میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو باقاعدگی سے حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: کابل میں تعلیمی ادارے پر خودکش حملہ، 19 افراد جاں بحق

شیعہ ہزارہ برادری کو کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کا سامنا ہے جنہیں طالبان نے سابق امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف اپنی مزاحمت کے دوران نشانہ بنایا اور داعش بھی ان کو حملوں کا ہدف بناتی رہی ہے۔

گزشتہ سال طالبان کی اقتدار میں واپسی سے قبل بھی دشت برچی ہی واقع ہزارہ برادری کے اسکول کے قریب تین بم پھٹنے سے کم از کم 85 افراد ہلاک اور 300 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔

اس وقت بھی کسی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی لیکن ایک سال قبل داعش نے اس علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں 24 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں