کابل: وزارت داخلہ کے قریب مسجد میں دھماکا، 2 افراد ہلاک

05 اکتوبر 2022
وزارت داخلہ کے قریب مسجد میں دھماکے کے بعد 20 زخمیوں کو علاج کے لیے منتقل کیا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی
وزارت داخلہ کے قریب مسجد میں دھماکے کے بعد 20 زخمیوں کو علاج کے لیے منتقل کیا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں وزارت داخلہ کے دفتر کے قریب مسجد میں بم دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک جبکہ 20 زخمی ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنفی تکور نے کہا کہ وزارت داخلہ سے تھوڑے فاصلے پر ایک مسجد میں دھماکا ہوا جہاں کچھ ملازمین اور دیگر شہری نماز ادا کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: کابل میں تعلیمی ادارے پر خودکش حملہ، 19 افراد جاں بحق

کابل میں ہسپتال چلانے والی اطالوی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ’ایمرجنسی‘ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ وزارت داخلہ کے قریب مسجد میں دھماکے کے بعد 20 زخمیوں کو علاج کے لیے منتقل کیا گیا جن میں سے 2 افراد پہلے ہی ہلاک ہوچکے تھے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نے بم دھماکے سے ہونے والی ہلاکتوں یا زخمیوں کی تعداد نہیں بتائی مگر کہا کہ تفتیش جاری ہے۔

واضح رہے کہ 30 ستمبر کو کابل کے مغربی علاقے دشت برچی کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک خودکش بمبار نے حملہ کردیا تھا، جہاں سیکڑوں طلبہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔

افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے کہا تھا کہ کابل میں تعلیمی ادارے پر ہونے والے خودکش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل خود کش دھماکا، ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی

گزشتہ سال طالبان کی اقتدار میں واپسی سے افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوا تھا اور تشدد میں نمایاں کمی آئی تھی، لیکن نئے حکمرانوں کے دور میں حالیہ مہینوں میں سیکیورٹی صورت حال خراب ہونا شروع ہوگئی ہے۔

افغانستان کے ہزارہ برادری چند دہائیوں سے حملوں کی زد میں رہی ہے اور انہوں نے 1996 سے 2001 کے دوران طالبان کے پہلے دور حکومت میں ان کے ساتھ نامناسب رویہ اپنانے کا الزام لگایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسی طرح کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔

طالبان کی دشمن تنظیم ’داعش‘ کے حملوں کا نشانہ بھی اکثر ہزارہ برادری ہی بنتی ہے اور ان کارروائیوں میں بچوں، خواتین اور اسکولوں پر بھبی حملوں سے گریز نہیں کیا جاتا۔

پچھلے سال طالبان کی اقتدار میں واپسی سے قبل دشت برچی میں اسکول کے قریب تین بم دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 85 افراد جاں بحق اور 300 کے قریب زخمی ہو گئے تھے، جن میں اکثریت طالبات کی تھی۔

مزید پڑھیں: کابل: دھماکے سے ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی، ہزارہ برادری کی خواتین کا ’نسل کشی‘ کےخلاف احتجاج

مئی 2020 میں شدت پسند تنظیم پر ایک ہسپتال کے زچہ وارڈ پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا جس میں ماؤں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

افغانستان میں تعلیم کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں جہاں حکمراں طالبان نے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کردیے ہیں جبکہ طالبان لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے اعلانات بھی کرچکے ہیں، اسی طرح طالبان کی مخالف دہشت گرد تنظیم داعش بھی لڑکیوں کی تعلیم کی مخالف ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں