5 کھرب ڈالر مالیت کا سعودی شہر ایشین سرمائی گیمز 2029 کی میزبانی کرے گا

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2022
پروجیکٹ آؤٹ ڈور اسکیئنگ، مصنوعی میٹھے پانی کی جھیل اور قدرتی نظاروں کا حسین امتزاج ہوگا —فوٹو: رائٹرز
پروجیکٹ آؤٹ ڈور اسکیئنگ، مصنوعی میٹھے پانی کی جھیل اور قدرتی نظاروں کا حسین امتزاج ہوگا —فوٹو: رائٹرز

سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس نے خلیجی عرب ریاست کے 500 ارب ڈالر کے فلیگ شپ پروجیکٹ نیوم میں 2029 کے ایشین سرمائی کھیلوں کی میزبانی کی بولی جیت لی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پروجیکٹ ویب سائٹ کے مطابق ٹروجینا ریزورٹ پروجیکٹ کی تکمیل 2026 میں متوقع ہے، یہ پروجیکٹ آؤٹ ڈور اسکیئنگ، مصنوعی میٹھے پانی کی جھیل اور قدرتی نظاروں کا حسین امتزاج ہوگا۔

سعودی وزیر کھیل شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ سعودی قیادت اور ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے کھیلوں کے شعبے کے لیے لامحدود حمایت کے ساتھ ہمیں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ہم نے مغربی ایشیا کے پہلے ملک کے طور پر اے ڈبلیو جی ٹروجینا 2029 کی میزبانی کی بولی جیت لی ہے۔

نیوم ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا حصہ ہے، وژن 2030 کے تحت ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے سلطنت کا تیل پر انحصار کم کرتے ہوئے کھیلوں کو ترقی دینے سمیت معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں ایک ایسے شہر کی تعمیر جہاں گاڑیاں نہیں ہوں گی

اولمپک کونسل آف ایشیا (او سی اے) نے اپنی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران کیے گئے فیصلے پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے صحرا اور پہاڑ جلد ہی سرمائی کھیلوں کے میدان ہوں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے دی جانے والی بولی کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا جب کہ نیوم کے نام سے معروف میگا سٹی ایونٹ کی میزبانی کرنے والا پہلا مغربی ایشیائی شہر ہوگا۔

پروجیکٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ایشین ونٹر گیمز ایک ایسے علاقے میں ہونے جارہے ہیں جہاں موسم سرما کا درجہ حرارت زیرو سیلسیس (32 فارن ہائیٹ) سے نیچے تک گر جاتا ہے اور سال بھر کا درجہ حرارت عام طور پر خطے کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں 10 ڈگری ٹھنڈا ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ اکتوبر 2017 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بحیرہ احمر کے ساحلی علاقے میں 500 ارب ڈالرز کی لاگت سے نئے شہر کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ریاض: زائرین کے لیے مکہ اور مدینہ کے درمیان تیز رفتار ٹرین سروس کا آغاز

اس منصوبے میں اڑنے والی ٹیکسیوں اور روبوٹ نوکرانیوں جیسے مجوزہ منصوبوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے حیرانی کا اظہار کیا گیا جب کہ ماہرین تعمیرات اور ماہرین معاشیات نے بھی اس پروجیکٹ کی فزیبلٹی پر سوالات اٹھائے۔

یہ شہر موجودہ حکومتی فریم ورک سے آزاد خودمختار حیثیت میں کام کرے گا اور اس کے لیے حکومت 500 ارب ڈالرز سے زائد سرمایہ خرچ کرے گی، جبکہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے خودمختار ویلتھ فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔

یہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کا حصہ ہے اور سعودی ولی عہد کے مطابق اس منصوبے کے تحت بحیرہ احمر میں اتنا بڑا پُل بھی تعمیر کیا جائے جو کہ اس نئے شہر کو مصر، اردن اور افریقہ کے باقی حصوں سے ملا دے گا اور اس طرح دنیا میں پہلی بار تین ممالک کا پہلا خصوصی زون قائم ہوگا۔

نیوم سعودی عرب کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جہاں روبوٹس کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہوگی جبکہ ہولوگرام ٹیچرز جینیاتی طور پر تدوین شدہ طلبہ کو تعلیم دیں گے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کا ریاض میں دیوہیکل 'انٹرٹینمنٹ کمپلیکس' تعمیر کرنے کا اعلان

مستقبل کے اس شہر میں کیمرے، ڈرونز اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا بہت زیادہ استعمال ہوگا، تاکہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

روبوٹ ملازمین یہاں گھر کا ہر کام کریں گے، روبوٹس کے درمیان کیج فائٹس بھی لوگوں کی تفریح کے لیے ہوں گی جبکہ روبوٹ ڈائناسور سے بھرے ایک امیوزمنٹ پارک کو بھی تعمیر کیا جائے گا۔

اس خطے کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان نے اس شہر کی تعمیر کے حوالے سے ہونے والے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ 'میں کوئی شاہراہ نہیں چاہتا، ہم 2030 تک اڑنے والی گاڑیاں چاہتے ہیں'، ایک اور دستاویز میں لکھا ہے کہ ڈرائیونگ صرف تفریح کے لیے ہوگی، ٹرانسپورٹیشن کے لیے نہیں۔

اس کی تفصیلات تو واضح نہیں مگر اس شہر کے لیے ایک مصنوعی چاند کی تجویز موجود ہے، جو کہ ممکنہ طور پر ڈرونز کی فلیٹ یا خلا سے لائیو اسٹریم امیجز کی مدد سے تیار ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں