بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوئے ملک کو گمراہ کن نظریات، انتشار، فساد سے بچانا ہوگا، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2022
وزیراعظم نے کہا کہ کیا توشہ خانہ کو ذاتی کمائی کا ذریعہ بنانا، دستور، قانون کو نہ ماننے کا تصور ریاست مدینہ میں تھا — فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم نے کہا کہ کیا توشہ خانہ کو ذاتی کمائی کا ذریعہ بنانا، دستور، قانون کو نہ ماننے کا تصور ریاست مدینہ میں تھا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے جسے ہمیں دستور سے ہٹتے ہوئے گمراہ کن نظریات، انتشار اور فساد سے بچانا ہوگا۔

پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے یومِ ولادت کا جشن بھرپور مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔

اسی مناسبت سے لاہور میں سیرت النبی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم آج اس ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جو پوری انسانیت کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ کو اس معاشرے میں صادق و امین بنا کر بھیجا گیا جو جہالت کے اندھیروں میں غرق تھا، آپ ﷺ اس بدترین انسانی معاشرے میں بھی صادق و امین معروف تھے اور آپ کو اس کے لیے کسی کی گواہی کی ضرورت نہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں جشنِ عید میلادالنبی ﷺ مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے

ان کا کہنا تھا کہ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے دکھیوں کو چین ملا، بے سہاروں کو سہارا ملا، یتیموں اور بیواؤں کو پناہ ملی، غریبوں کو خودداری، غلاموں کو عزت اور امیروں کو سخاوت نصیب ہوئی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی بعثت نے تہذیب کو وقار، ثقافت کو تقدس، علم کو وسعت، فکر کو ندرت، عمل کو طہارت، نفرتوں اور عداوتوں میں سسکتی انسانیت کو اخوت و محبت کے تحفے اور انسان کو اپنے خالق تک رسائی کی معرفت نصیب فرمائی۔

شہباز شریف نے کہا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت مقدسہ تمام انبیا و رسول کی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اپنی ارفع اور پاکیزہ تعلیمات کے ذریعے زندگی کا فطری تصور پیش کیا، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور انسانوں کی برابری کی تعلیم دی، بڑائی کی بنیاد اچھے اعمال اور اعلیٰ اخلاق پر رکھی اور ظلم و ناانصافی کی ہر شکل کو ممنوع قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ ﷺ کے اثر انگیز ارشادات اور اسوۃ حسنہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدیوں کے دشمن بھائی بھائی بن گئے اور غریبوں اور کمزورں کے سر پر لٹکتی ظلم کی تلوار ٹوٹ گی۔

مزید پڑھیں: وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے جو قانون کی پاسداری میں سب سے بہتر ہو، صدر مملکت

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ آپ ﷺ کی تعلیمات کی بدولت جہالت کی جگہ علم و عرفان نے لے لی اور افلاس و محکومی کے بدلے معاشرے کو غنا اور آزادی نصیب ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کی بنیاد فلاحی اصولوں پر رکھی جس میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا، غریبوں، ناداروں کی دادرسی کی جاتی تھی اور آپ کے اسی کردار کو دیکھ کر غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا اور اسلام چار دانگ عالم پھیل گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں ریاست مدینہ کے اصولوں کی روشنی میں اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے، کیا یہ بات ریاست مدینہ کے پاک نام کی توہین کے مترادف نہیں کہ ہم نام تو ریاست مدینہ کا لیں اور ہمارا کردار، ہمارا طرز عمل اس کے تقاضوں کے منافی ہو۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ علم جس کو مسلمانوں کی میراث قرار دیا گیا تھا، ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ اس میں آج ہم کہاں ہیں، ریاستی نظم و نسق میں ہم کہاں ہیں، اخلاقی اور بدعنوانی کے لحاظ سے ہم کہاں ہیں، عوام کی خدمت، عدل و انصاف، ایمانداری اور صداقت میں ہم کہاں کھڑے ہیں، پوری قوم ہم سے آج یہ چبھتے ہوئے سوالات پوچھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مثال دیتے ہیں ریاست مدینہ کی اور عام عوام تو دور، ہم ججز اور عدالتوں کو بھی جواب دینے پر تیار نہ ہوں، کوئی حساب مانگے تو ہم رکیک حملے کریں، کیا ہمارے عدل و انصاف کے تقاضے وہی ہیں جو ریاست مدینہ میں تھے، ریاست مدینہ میں سب قانون کی نظر میں برابر تھے، کیا ہمارے معاشرے میں سب نظام عدل کے سامنے برابر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بہتان جھوٹ اور الزامات لگا کر مخالفین کو ناحق قید میں ڈالنا، قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا، کیا یہ طرز عمل کسی ریاست مدینہ کے ماننے والے کا ہوسکتا ہے، آج مخالفین کے لیے ایسے ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں کہ عقل ورطہ حیرت میں رہ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج سیلاب کے باعث لاکھوں لوگ امداد کے منتظر ہیں لیکن کیا ہمارا جذبہ انصار مدینہ والا ہے، آج بھی بعض لوگوں کو سیلاب متاثرین سے زیادہ اپنی سیاست پیاری ہے، میرا گھر تو جائز قرار دے دیا جائے اور غریبوں کے گھر ڈھا دیے جائیں، کیا یہ طرز عمل ریاست مدینہ میں ممکن تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کیا توشہ خانہ کو ذاتی کمائی کا ذریعہ بنانا، دستور، قانون کو نہ ماننے کا تصور ریاست مدینہ میں تھا، ریاست مدینہ میں لوگوں کے معاشی بوجھ کم کیے گئے، یہی وجہ تھی کہ زکوٰۃ دینے والے تو موجود تھے لیکن لینے والا ملتا نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے قوم کے خلاف سازش کی جس کی آڈیو آچکی ہے، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ ملک ریاست مدینہ تبھی بن سکتا ہے جب ہم سیرت طیبہ اور اصحاب پاک کے نقش قدم پر چلیں، ہم کب تک روایتی تقاریر کرتے رہیں گے، یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا، اسے دستور سے ہٹتے ہوئے گمراہ کن نظریات، انتشار اور فساد سے بچانا ہوگا، ایمان اتحاد اور تنظیم کے سبق پر واپس آنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں وہ فلاحی نظام تشکیل دیں جو ریاست مدینہ کے ثمرات عوام میں تقسیم کرے، ہم طرز حکمرانی ٹھیک کرکے عوام کے لیے معاشی آسودگی لے کر آئیں، انصاف کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہو، لوگوں کو سستی تعلیم اور مفت علاج فراہم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو دھوکا دیا جاسکتا ہے لیکن بروز قیامت کیا منہ دکھائیں گے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کے لیے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے اور اس کا جواب تلاش کرنا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ قیامت تک انسانیت کے ہر دکھ کا مداوا رحمتِ دوجہاں ﷺ کی کامل تابعداری میں پنہاں ہے، اللہ تعالی ہمیں اپنے حبیب مکرم ﷺ کی کامل اتباع و اطاعت نصیب فرمائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں