سائفر کا معاملہ: سازش کے حقائق پر اتفاق نہیں مگر شبہات ہیں، صدر مملکت

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2022
صدرمملکت نے کہا کہ سائفر کے معاملے پر تحقیقات ہونی چاہیے — فوٹو: ڈان نیوز
صدرمملکت نے کہا کہ سائفر کے معاملے پر تحقیقات ہونی چاہیے — فوٹو: ڈان نیوز

صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مبینہ امریکی سازش کے حوالے سے سائفر کے معاملے پر کہا ہے کہ سازش کے حقائق سے متفق نہیں مگر مجھے شبہات ہیں اس لیے چیف جسٹس سے تحقیقات کے لیے کہا۔

آج نیوز کے پروگرام ‘فیصلہ آپ کا’ میں میزبان عاصمہ شیرازی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔

سائفر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے وہ خط چیف جسٹس کو بھیجا، میں اس بات پر متفق تھا کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہیے، میں اس حقیقت پر متفق نہیں تھا کہ سازش ہوئی مگر میرے شبہات ہیں، اس لیے تحقیق ہو۔

صدر مملکت نے کہا کہ لیاقت علی خان کی شہادت ہوئی، اس کے بعد ایوب خان نے کتاب میں لکھا فرینڈز ناٹ ماسٹرز، ہمیں دوست چاہیئں آقا نہیں چاہیے، بھٹو نے متھ آف انڈیپینڈنس لکھی اور جب انہیں ہٹایا گیا تو راولپنڈی میں ایک کاغذ لہرایا، اس کے بعد ضیاالحق کا جہاز گرا لیکن کوئی تحققیات نہیں ہوئیں۔

مزیدپڑھیں: عمران خان آرمی چیف سے متعلق اپنے بیان کی خود وضاحت کریں، صدر مملکت

انہوں نے کہا کہ اوجھڑی دھماکا، ایبٹ آباد اور میمو سازش ہوئی لیکن کسی کو کچھ پتا نہیں چلا، میں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ واقعاتی شواہد بھی دیکھ لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ریاست کے حوالے سے الفاظ کا استعمال بہتر ہونا چاہیے اور پاکستان کی حکومت نے ڈیمارش کیا۔

'منافرت اس حد تک نہ لے جاؤ کہ قوم بھگتے'

جب بھی میں نے تنازعات کے دوران مذاکرات چھوڑ دیا تو حالات خراب ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کی سیاست کے اندر بھی اس بات کو اہمیت دیتا ہوں کہ بات کرو اور منافرت اس حد تک نہ لے جاؤ کہ قوم بھگتے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 6 کا فوج اور جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے ایک پس منظر ہے، اسی لیے کہا گیا ہے کہ آئین کو زبردستی پامال کرے یا معطل کرے تو آرٹیکل 6 ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی جنگ بندی کے مشورے سے پیچھے ہٹنے پر صدر مملکت کو تنقید کا سامنا

صدرمملکت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پارلیمنٹ سے باہر ہونے سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے، اب مشورہ دینا بے کار ہے کیونکہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔

'عمران خان کو استعفے سے مختلف مشورہ دے سکتا تھا'

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان جس طرح ان کی حکومت ہٹائی گئی، اس سے فرسٹریٹ ہوگئے اور ذاتی طور پر فیصلہ کیا کہ میں نہیں بیٹھوں گا، مجھ سے مشورہ ہوتا تو میں اس سے مختلف مشورہ بھی دے سکتا تھا۔

عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی حد تک اپنی کشتیاں جلائیں، شاید لوگوں نے اس بات کو بھی سراہا کہ یہ عوام کے پاس آگیا اور عوام میں مقبولیت حاصل کی۔

میزبان کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں فوج نیوٹرل ہے تو صدر مملکت نے کہا کہ ان کو ہونا چاہیے، پاکستان کا آئین سیاست کے اندر فوج کو کوئی کردار نہیں دیتا۔

ان کا کہنا تھا کہ زور زبردستی آئینی اور غیرآئینی انداز سے بھی استعمال نہ ہو، اس وقت زور زبردستی قانون کے لبادے میں بھی کردی جائے تو زیادتی ہے، زور زبردستی سے ملک کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا انتخابی ترمیمی بل پر دستخط سے انکار

صدر مملکت نے آڈیو لیکس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا پرائیویسی کا سلسلہ ختم ہورہا ہے لیکن پہلے ایسا نہیں تھا۔

'آرمی چیف کی تعیناتی آئینی طریقہ کار کے مطابق ہونی چاہیے'

آرمی چیف کی تعیناتی پر ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو آئینی طریقہ کار ہے، اسی سے ہونی چاہیے، مشاورت ہونی چاہیے لیکن میرے پاس مشاورت کے بعد آئے تو اچھی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اخبار میں پڑھا کہ لندن میں مشاورت ہو رہی ہے اور اس کی تردید بھی نہیں کی گئی بلکہ وزرا نے کہا مشاورت ہو رہی ہے، میں سمجھتا ہوں مشاورت وسیع بنیاد پر ہو۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے ماضی میں اپوزیشن سے مشاورت ہوئی ہے، آئین میں یہ نہیں لکھا ہوا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے حکومت مشاورت کرے، توسیع جب دی گئی تھی تو مشاورت ہوئی اور آئین میں وہ نکتہ لایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں