منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں براہ راست رقم منتقل نہیں ہوئی، ایف آئی اے

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2022
وزیراعظم شہباز شریف آج سماعت کے لیے عدالت میں پیش نہ ہوئے — فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیراعظم شہباز شریف آج سماعت کے لیے عدالت میں پیش نہ ہوئے — فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور کی خصوصی عدالت کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے بینک اکاؤنٹس میں براہ براست رقم منتقل نہیں کی گئی۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی لاہور کی خصوصی عدالت میں درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران ایف آئی اے کے وکیل نے اعتراف کیا کہ دونوں کے بینک اکاؤنٹس میں براہ راست رقم منتقل نہیں کی گئی۔

اس سے قبل 8 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے پراسیکیوشن اور ملزمان کے وکیل کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یاد رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے، جبکہ سلیمان شہباز برطانیہ مفرور ہیں۔

منی لانڈرنگ کیس میں عدالت نے وزیر اعظم شہباز شریف کی حاضری معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے وکلا کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دے دی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارےکی خصوصی سینٹرل کورٹ میں آج جج اعجاز حسن اعوان نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی ضمانت میں 11 جون تک توسیع

وزیراعظم شہباز شریف آج سماعت کے لیے عدالت میں پیش نہ ہوئے اور ان کے وکیل امجد پرویز نے حاضری معافی کی درخواست دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم سرکاری مصروفیات کے باعث پیش نہیں ہوسکتے، عدالت ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست منظور کرے، جس پر عدالت نے شہباز شریف کی حاضری معافی کی درخواست منظور کرلی۔

گزشتہ سماعت پر شہباز شریف کی بریت کی درخواست پر دلائل مکمل کر لیے گیے تھے، آج حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز نے بریت کی درخواست پر دلائل دیے۔

دوران سماعت جج اعجاز حسن اعوان نے ایف آئی اے کی وکیل فاروق باجوہ سے استفسار کیا کہ ملک مقصود کے کتنے بینک اکاؤنٹس ہیں؟

مزید پڑھیں: وزیراعظم کےخلاف منی لانڈرنگ کیس میں نامزد ملزم مقصود ’چپڑاسی‘ انتقال کرگئے

فاروق باجوہ نے جواب دیا کہ ملک مقصود کے نام پر 8 بینک اکاؤنٹس ہیں، یہ تمام تفصیلات چالان میں موجود ہیں، ریکارڈ کے مطابق شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں براہ راست پیسے جمع نہیں کرائے گئے، نہ ہی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس سے براہ راست پیسے نکلوائے گئے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نہ کوئی کک بیکس کا نہ رشوت کا الزام ہے، بینکرز کو ایف آئی اے نے کیس سے ہی نکال دیا، بینکرز گواہ ہیں نہ ملزم، تحقیقات حکومت تبدیل سے پہلے ہوئی اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کے بیانات لیے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ساری تفتیش گزشتہ حکومت کی تفتیشی ٹیم نے کی، کسی گواہ نے شہباز شریف یا حمزہ شہباز کا نام تک نہیں لیا، اگر کوئی ایسا بیان آ جائے تو میں عدالت سے باہر چلا جاؤں گا۔

اس دوران ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز رمضان شوگر مل کے شیئر ہولڈر اور مالک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف رمضان شوگر مل کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے، نیب گواہ

جج نے استفسار کیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ پیسے کا لین دین اور پیسے ٹرانسفر حمزہ شہباز کے کہنے پر ہوئے؟ فاروق باجوہ نے جواب دیا کہ اس بات کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

امجد پرویز نے کہا کہ جن لوگوں کے اکاؤنٹس کھلوائے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ پیسے کہاں سے آئے۔

ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ جن کے اکاؤنٹس ہیں وہ اسے تسلیم کرتے ہیں، مرحوم گلزار کا اکاؤنٹ بھی رمضان شوگر ملز کی انتظامیہ آپریٹ کرتی رہی۔

عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا آپ تحریری طور پر یہ سب لکھ کر دے سکتے ہیں؟

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایف آئی اے کی درخواست پر شہباز شریف 4 اپریل کو عدالت طلب

فاروق باجوہ نے کہا کہ مجھے تحریری بیان دینے کے متعلق ہدایات نہیں ہیں، جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق معاونت کر سکتا ہوں۔

عدالت نے ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس زبانی شواہد کیا ہیں؟

امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے 66 گواہان رکھے، کسی نے شہباز شریف اور حمزہ پر کوئی الزام نہیں لگایا، یہ چالان گزشتہ حکومت میں مکمل ہوا، حکومت تبدیل ہونے کے بعد نہیں، سیاسی بیانیے کے طور پر الزام لگائے جاسکتے ہیں مگر عدالت نے شواہد پر فیصلہ کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف نہ رمضان شوگر مل کے ڈائریکٹر ہیں نہ ہی شیئر ہولڈر ہیں، 2008 سے 2018 تک رمضان شوگر مل کے اکاؤنٹ سے شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں کچھ نہیں آیا، اسی قسم کے کیس میں ہائی کورٹ نے مونس الہٰی کے خلاف مقدمے کو خارج کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے میں طلبی: شہباز شریف، حمزہ شہباز نے عبوری ضمانت حاصل کر لی

اس دوران شہباز شریف کے وکیل نے مونس الہٰی کے فیصلے کی کاپی پیش کردی۔

امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ اس کیس میں اور مونس الہٰی کیس دونوں میں مدعی ریاست تھی، ہمارے کیس میں نہ کسی بینک نہ سرکاری خزانے نہ کسی شخص کو نقصان ہوا، یہ صرف سیاسی بیانیے کی کہانی ہے، یہ کیس ایک دن نہیں چل سکتا، نیب نے بھی یہی کیس بنایا ہوا جس میں شہباز شریف کے تمام بیٹے، بیٹیاں اور بیویوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے وکلا کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

منی لانڈرنگ کیس

خیال رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، سلیمان شہباز برطانیہ میں ہیں اور انہیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔

بدعنوانی کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 5 (2) اور 5 (3) (مجرمانہ بدانتظامی) کے تحت 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔

ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی توثیق

ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپڑاسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔

ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایف آئی اے کی درخواست پر شہباز شریف 4 اپریل کو عدالت طلب

چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کی مدد سے کیا۔

ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں