وفاقی حکومت کا خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھرپور مدد کا فیصلہ

12 اکتوبر 2022
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کی زیر صدارت اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا—فوٹو: ڈان نیوز
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کی زیر صدارت اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی حکومت نے سوات میں اسکول وین پر حملے کا جائزہ لینے کے بعد خیبرپختونخوا میں دہشت گردی ختم کرنے کے لیے بھرپور مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کی زیرصدارت وزیراعظم کی تشکیل کردہ امن کمیٹی کااجلاس ہوا جہاں خیبرپختونخواہ بالخصوص سوات میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں کمیٹی اراکین متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی خالدمقبول صدیقی، بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن خالد حسین مگسی، محسن داوڑ، وزیراعظم کے مشیر امیر مقام، خیبرپختونخوا کے سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ خان اور سابق سینیٹر محمد صالح شاہ نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے مخلتف تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا معاملہ بھی زیرغور آیا۔

بیان میں کہا گیا کہ دعوت کے باوجود پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کمیٹی اراکین علی محمد خان اور بیرسٹر محمد علی سیف نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

کمیٹی نے خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے خلاف سوات کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھرپور مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور اراکین نے اتفاق کیا کہ صوبے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھرپور مدد کریں گے۔

پی ٹی آئی اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت سیاست کے بجائے صوبے میں امن یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں انتہاپسندی اور دہشت گردی فروغ پارہی ہے مگر صوبائی حکومت وفاق کے خلاف دھرنوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔

خیال رہے کہ سوات کے علاقے گلی باغ میں 10 اکتوبر کو نجی اسکول کی گاڑی پر حملے میں ڈرائیور محمد حسین موقع پر جاں بحق ہوگیا تھا اور اس واقعے میں دو طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

سوات کے شہریوں نے اس حملے کا الزام کالعدم ٹی ٹی پی پر عائد کیا تھا تاہم گروپ نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، جبکہ کسی اور تنظیم نے بھی تاحال حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

واقعے کے خلاف سوات میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور 40 گھنٹوں تک مقتول کے لواحقین سمیت ہزاروں افراد نے دھرنا دیا اور مقتول کی تدفین بھی نہیں کی۔

بعد ازاں انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔

مظاہرین اسکول وین پر حملوں کے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے اور دھمکی دی تھی کہ اگر انتظامیہ 24 گھنٹوں میں ان کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہوئی تو اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔

انتظامیہ نے وعدہ کیا تھا کہ ملزمان کو فوری گرفتار کریں گے اور مقتول کے بچوں کی کفالت کی جائے گی۔

مظاہرین نے انتظامیہ کے وعدے کے حوالے سے کہا تھا کہ ‘ڈپٹی کمشنر نے مقتول ڈرائیور کے لواحقین کے لیے شہدا پیکیج کا وعدہ کیا اور کہا ہے کہ سوات کی سیکیورٹی سخت کی جائے گی اور مستقبل میں اس طرح کے دہشت گردی کے واقعے سے بچنے کے لیے انتظامات کیے جائیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کی تشکیل دی گئی 5 رکنی کمیٹی کو حملے کی تفتیش سے آگاہ کیا جائے گا۔

انتظامیہ کی جانب سے یقین دہانی کے بعد مظاہرین نے مقتول ڈرائیور کی نماز جنازہ ادا کردی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں