نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے بھارت کو اقدامات کرنے ہوں گے، ہم تیار ہیں، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2022
وزیراعظم کا قازقستان میں ہونے والے ایشیا میں روابط و اعتماد سازی کے اقدامات سے متعلق سربراہی اجلاس سے خطاب —تصویر: ڈان نیوز
وزیراعظم کا قازقستان میں ہونے والے ایشیا میں روابط و اعتماد سازی کے اقدامات سے متعلق سربراہی اجلاس سے خطاب —تصویر: ڈان نیوز

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم خطے کی خوشحالی اور امن کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کو بالکل تیار ہیں لیکن سنجیدہ، بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے بھارت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

قازقستان میں ہونے والے ایشیا میں روابط و اعتماد سازی کے اقدامات سے متعلق سربراہی اجلاس (سیکا) سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے ہم منصبوں، بھارتیوں کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کے لیے بالکل تیار ہوں، بشرطیکہ وہ اس مقصد کے لیے خلوص کا مظاہرہ کریں اور یہ ظاہر کریں کہ وہ ایسے مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں سے ہمارے درمیان فاصلے رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے والے مسائل نے دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ میں رکاوٹ ڈالی۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاک بھارت پرامن تعلقات ناگزیرہیں'، وزیر اعظم شہباز شریف کا بھارتی ہم منصب کو خط

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ 'اسے روکنے کی ضرورت ہے' لیکن یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بامعنی اور نتیجہ خیز رابطوں کے لیے ضروری اقدامات کرے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان، بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات کا خواہاں ہے، 7 دہائیوں سے بھارت، کشمیر کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی قرادادوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج بھارت اپنی اقلیتوں، ہمسایہ ممالک، خطے اور خود اپنے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے، اس کے باوجود ہم بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ہم خطے میں مزید غربت، بے روزگاری کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عوام کو صحت، تعلیم اور روزگار فراہم کرنے کے لیے زیادہ وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے، ہم بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن سنجیدہ، بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے بھارت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

'سیلاب سے ہوئی تباہی نے پاکستان کو کئی دہائی پیچھے دھکیل دیا'

وزیر اعظم نے بتایا کہ پاکستان کو اس وقت بدترین قدرتی آفت کا سامنا ہے، بے مثال بارشوں نے میرے ملک کے ایک تہائی حصے کو ڈبو دیا ہے جو بلا شک و شبہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تخمینے کے مطابق ہماری معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے اور میں نے گزشتہ کئی ہفتوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاکر اس تباہی کا خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کا 28 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی جانب سے تمام تر وسائل کا رخ ریسکیو، ریلیف اور ری ہیبلیٹیشن کی جانب موڑ دیا ہے لیکن ہمارے پاس کافی امداد نہیں، موسمیاتی تبدیلی کی طاقت نے ہم پر غلبہ پالیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ چیز جو اس صورتحال کو مزید اندوہناک بنا رہی ہے وہ یہ ہے کہ حالانکہ پاکستان عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں صرف ایک فیصد کا ذمہ دار ہے، لیکن پھر میں ہم ان 10 ممالک میں شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ اس تباہی نے پاکستان کو کئی دہائی پیچھے دھکیل دیا ہے، بچوں سمیت ایک ہزار 600 سے زائد پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہزاروں کلومیٹر طویل سڑکیں بہہ گئیں، پورے پورے گاؤں پانی میں ڈوب گئے، کپاس، چاول اور گندم کی فصلیں تباہ ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ زمین کا بڑا حصہ آج سمندر کا منظر پیش کر رہا ہے، وہاں نیوی کی کشتیاں چل رہی ہیں جہاں کبھی بچے کرکٹ اور فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، وزیر اعظم شہباز شریف

ان کا کہنا تھا پاکستان کو فوری مدد کی ضرورت ہے، ہمارے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد دربدر ہوئے جو دنیا کے کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے بڑی تعداد ہے، ان افراد کی دوبارہ آبادکاری کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ میں ذاتی طور پر اقوامِ متحدہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے لیے 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر امداد کی نئی ہنگامی اپیل کی، دنیا کے کئی ممالک نے عطیات کا وعدہ کیا اور امدادی سامان بھیجا جن کا میں اپنی قوم کی جانب سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم دوبارہ آبادکاری اور تعمیر کے انتہائی اہم مرحلے کے لیے آپ کے تعاون کے منتظر ہیں، ہم پُرعزم ہیں کہ ہم بہت مختصر عرصے میں اس سیلاب سے مضبوط ہو کر نکلیں گے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت خطے کی معیشتوں کے درمیان قدرتی پُل کا کام کرتی ہے، پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) نے خطے کے معاشی اور مواصلاتی روابط کو تبدیل کردیا ہے، ہم اپنے دوستوں کو تجارت، کاروبار اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی پیشکش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی امریکی صدر سے ملاقات، بائیڈن کا پاکستان کی مدد جاری رکھنے کا اعادہ

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 4 دہائیوں سے جاری تنازع نے افغان عوام کی زندگی کو مشکل بنا دیا اور خطے کی سلامتی اور امن کو متزلزل کیا اور پاکستان، افغانستان میں جاری تنازع کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 80 ہزار سے زائد انسانی جانوں اور 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کیا اور بالآخر ہم دہشت گردی کو ہر صورت میں شکست دینے میں کامیاب رہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ایک پرامن، مضبوط اور خوشحال افغانستان نہ صرف پاکستان، خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے مفید ہوگا، ہم دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پائیدار امن، استحکام اور ترقی کی جدوجہد میں افغان عوام کی مدد کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں