انتظار قتل کیس: 2 پولیس اہلکاروں کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

15 اکتوبر 2022
فیصلے میں کہا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج نے استغاثہ کے دیگر شواہد کی تصدیق کی ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
فیصلے میں کہا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج نے استغاثہ کے دیگر شواہد کی تصدیق کی ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے ڈی ایچ اے میں فائرنگ کے تبادلے میں نوعمر طالب علم انتظار احمد کی ہلاکت کے الزام میں اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے 6 پولیس اہلکاروں کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دے دی جبکہ 2 دیگر پولیس اہلکاروں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مشاہدہ کیا کہ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے دائرہ کار میں نہیں آتا کیونکہ پولیس نے صرف متاثرہ کی گاڑی کو روکا تھا جس سے ان کا دہشت گردی پھیلانے کا کوئی مقصد یا ارادہ نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انتظار قتل کیس: دو پولیس اہلکاروں کو سزائے موت، 6 ملزمان کو عمر قید

انسداد دہشت گردی نے پولیس کانسٹیبل بلال رشید اور محمد دانیال کو سزائے موت سنائی تھی جو اس وقت اینٹی کار لفٹنگ سیل کے ایس ایس پی مقدس حیدر کے گن مین اور ڈرائیور کے طور پر تعینات تھے اور اس وقت کے ایس ایچ او طارق محمود، انسپکٹرز طارق رحیم، اظہر احسن، ہیڈ کانسٹیبل شاہد عثمان، کانسٹیبل غلام عباس اور فواد خان کو اکتوبر 2021 میں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

انہیں 13 جنوری 2018 کی رات ڈی ایچ اے میں فائرنگ کے تبادلے میں 19 سالہ انتظار احمد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

تمام مجرمان نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے وکیل کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے اپیلیں دائر کی تھیں۔

ڈویژن بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ نے بلال رشید اور محمد دانیال کے خلاف اپنا مقدمہ قائم کیا ہے کیونکہ انہوں نے مقتول کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی جبکہ وہ کار چھیننے والوں کے خلاف کارروائی کرنے والی ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی: انتظار قتل کیس میں ’اہم گواہ‘ کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

ڈویژن بینچ نے کہا کہ ان کے خلاف سب سے مضبوط ثبوت سی سی ٹی وی فوٹیج ہے جس میں دیکھا گیا کہ تمام اپیل کنندہ جائے وقوعہ پر موجود تھے اور بلال رشید اور محمد دانیال مقتول کی گاڑی پر فائرنگ کر رہے تھے۔

دونوں اپیل کنندگان کے وکیل نے بینچ سے فوٹیج کے شواہد کو خارج کرنے کو کہا کیونکہ یہ حفاظتی تحویل یا فارنزک تجزیے سے مشروط نہیں ہے، تاہم بینچ نے کہا کہ عدالتیں سائنس اور ٹیکنالوجی پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی کوشش کر رہی ہیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج نے استغاثہ کے دیگر شواہد کی تصدیق کی ہے، بینچ نے ریمارکس دیے کہ فوٹیج فراہم کرنے والے گواہ کے پاس اس فوٹیج میں تحریف کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی اور جب اسے ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو دفاعی وکیل کی جانب سے بھی ایسی کسی چھیڑ چھاڑ کا کوئی امکان ظاہر نہیں کیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ لہٰذا ہم اس سی سی ٹی وی فوٹیج کو بطور ثبوت قابل قبول سمجھتے ہیں اور اس پر بھروسہ کرتے ہیں، جب ثبوت قابل بھروسہ ہوں تو قانون کو تکنیکی چیزوں میں الجھایا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتظار قتل کیس: عینی شاہد 'پولیس اہلکاروں' کو شناخت کرنے میں ناکام

بنچ نے مزید مشاہدہ کیا کہ استغاثہ کی ایک اہم گواہ مدیحہ کیانی (جو واقعے کے وقت مقتول کے ساتھ سفر کر رہی تھیں) نے کسی بھی ملزم کی شناخت کیے بغیر استغاثہ اور فوٹیج کے کیس کی مکمل تصدیق کی۔

ایسا لگتا ہے کہ ابتدائی طور پر پولیس نے کار کو جانے کی اجازت دی کیونکہ گاڑی میں ایک مرد اور خاتون موجود تھے جن پر یہ شک کرنا مشکل تھا کہ وہ کار چھیننے والے ہو سکتے ہیں اور اس وقت پولیس کے پاس تلاشی کے لیے کوئی لیڈی کانسٹیبل بھی نہیں تھی۔

تاہم بینچ نے کہا کہ بلال رشید اور محمد دانیال نے کار چھیننے والوں کے خلاف کارروائی کرنے والی ٹیم کا حصہ نہ ہونے کے باوجود گاڑی کو دوبارہ روکنے کی کوشش کی اور گاڑی کا پیچھا کرنے کے بجائے فائرنگ کی جو کہ سراسر بلاجواز اور غیر قانونی تھا۔

استغاثہ کے کچھ گواہوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’شاید انہوں نے اپنے ایس ایس پی کی نظروں میں خود کو منوانے کے لیے فائرنگ کی تھی جن کے مقتول کے ساتھ خاندانی تعلقات کی وجہ سے ذاتی مسائل تھے‘۔

مزید پڑھیں: انتظار احمد کا قتل منصوبہ بندی سے ہوا، مدیحہ کیانی

تاہم بینچ نے کہا کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا کیونکہ یہ واضح نہیں کہ دونوں اپیل کنندگان میں سے کس کی گولی جان لیوا ثابت ہوئی کیونکہ 3 گولیاں گاڑی کو لگیں اور مقتول کو ایک گولی لگی۔

اس میں کہا گیا کہ استغاثہ نے نہ تو کسی کو گرفتار کیا اور نہ ہی کوئی ایسا کوئی مقصد ثابت ہوا جس کی کیس کے شکایت کنندہ نے تصدیق کی۔

سندھ ہائی کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر غور نہیں کیا کیونکہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا اور اپیل کنندگان کو رپورٹ تیار کرنے والوں پر جرح کا موقع نہیں دیا گیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ دیگر تمام اپیل کنندگان نے دفاعی درخواست میں جائے وقوع پر اپنی موجودگی اور قانونی فرائض کی انجام دہی کا اعتراف کیا تھا جبکہ دیگر 2 اپیل کنندگان نے آزادانہ طور پر فائرنگ کی جس کی فوٹیج سے تائید ہوتی ہے۔

فیصلے میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ دیگر اپیل کنندگان واقعے کے ذمہ دار محض اس لیے نہیں سمجھے جا سکتے کیونکہ وہ بلال رشید اور محمد دانیال کے ہمراہ جائے وقوع پر موجود تھے جنہوں نے انفرادی طور پر اور ان کے علم میں لائے بغیر جرم کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں