قومی سلامتی کمیٹی کا دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائی کا عزم

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہوا—فائل فوٹو: پی ایم او
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہوا—فائل فوٹو: پی ایم او

قومی سلامتی کمیٹی نے خیبر پختونخوا میں دوبارہ سر اٹھانے والی دہشت گردی کا سختی سے جواب دینے کا عزم اور انسداد دہشت گردی کے محرکات کو متحرککرنے کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں وزرا، سروسز چیفس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان نے شرکت کی، یہ اجلاس سوات میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج کے پس منظر میں بلایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سوات، شانگلہ کے عوام کا دہشت گردی کی لہر کے خلاف ایک مرتبہ پھر شدید احتجاج

قومی سلامتی کمیٹی کا یہ فیصلہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے ان ریمارکس کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جنہوں نے علیحدہ طور پر ایک بیان میں کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ حالیہ مذاکرات بے نتیجہ رہے اور اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ مسلح افواج قومی سلامتی کو درپیش کسی بھی خطرے سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔

مینگورہ میں اسکول وین ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد پیر کو سوات میں احتجاج کا آغاز ہوا تھا، یہ واقعہ اس روز پیش آیا جب ملالہ یوسفزئی پر حملے کو 10 برس مکمل ہوگئے۔

وزیر اعظم دفتر نے ایک بیان میں کہا ’قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کا خون بہت قیمتی ہے اور اس کو بہانے میں ملوث ہر شخص کے ساتھ قانون سختی سے نمٹے گا‘۔

مزید پڑھیں: قومی سلامتی کمیٹی اجلاس: آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری

اجلاس کے شرکا نے کہا کہ شہریوں کے جان و مال، ملک کی جغرافیائی سالمیت کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستی ادارے اور عوام متحد ہیں، ان اہداف کا حصول ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے بھی اپنے آخری اجلاس میں تشویش اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ تازہ صورتحال انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے سلسلے میں عسکریت پسندی کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیوں کو اُلٹ سکتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم شہاز شریف چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایا جائے۔

رواں ہفتے سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان آنے والی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی دہشتگردی کے خلاف احتجاج کی حمایت کی۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’میں سوات میں امن کی خاطر احتجاج کرنے والے ہزاروں لوگوں کے ساتھ اپنی آواز ملاتی ہوں، پیر کو بچوں سے بھری اسکول بس پر حملہ ایک خوفناک یاد دہانی ہے کہ ہمارے لوگوں کو خوف اور دہشت گردی سے گھری زندگیوں میں واپس نہیں دھکیلا جانا چاہیے‘۔

قومی سلامیتی کمیٹی نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کے علاوہ نواز شریف اور جنرل راحیل شریف دور کی اپیکس کمیٹی کی بحالی پر بھی اتفاق کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سوات اسکول وین حملہ: انتظامیہ سے مذاکرات کامیاب، لواحقین کا 40 گھنٹے سے جاری دھرنا ختم

وزیر اعظم آفس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اجلاس میں مرکزی سطح پر ایپکس کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کی صدارت وزیر اعظم کریں گے‘۔

شرکا نے مسلح افواج کی بجائے انسداد دہشت گردی کی نئی حکمت عملی میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کو مرکزی کردار دینے کا فیصلہ کیا جوکہ انسداد دہشت گردی کے صوبائی محکموں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر انسداد دہشت گردی کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو مضبوط کیا جائے گا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے گا اور اس کے اہلکاروں کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے گا۔

وزیراعظم آفس نے کہا کہ نیکٹا کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی حفاظت کی ذمہ داری بھی دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے

اجلاس میں رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے بھی شرکت کی، تاہم خیبر پختونخوا حکومت کی اجلاس میں نمائندگی نہیں تھی۔

خواجہ آصف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومتیں جلد ختم کر دی جائیں گی، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اس مقصد کے لیے پہلے ہی سرگرم ہے۔

خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی وضاحت

دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ دہشتگردی کے تمام واقعات کا تعلق ٹی ٹی پی سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ مذاکرات کے دوران انہوں نے حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ وہ اپنی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کریں گے۔

مزید پڑھیں: سوات میں اسکول وین پر فائرنگ سے ڈرائیور جاں بحق، 2 طلبہ زخمی

انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں سرگرم بہت سے دہشتگرد گروپ ٹی ٹی پی کے مخالف ہیں، سوات میں اسکول وین پر حالیہ حملہ ٹی ٹی پی کا کام نہیں لگتا۔

تحصیل مٹہ میں عسکریت پسندوں کی دراندازی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایک عسکریت پسند کمانڈر اپنی بیمار بہن کی خیریت دریافت کرنے گھر آیا تھا لیکن چونکہ پولیس افسران حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں سے لاعلم تھے اس لیے یہ حادثہ پیش آیا۔

تبصرے (0) بند ہیں