سیلاب زدہ علاقوں میں پانی کی سطح میں کمی، متاثرین نے آبائی علاقوں کا رخ کرلیا

17 اکتوبر 2022
موسم سرما نزدیک آتے ہی سیلاب زدگان کو سخت موسمی حالات کا سامنا ہوگا—فائل فوٹو/ اے پی
موسم سرما نزدیک آتے ہی سیلاب زدگان کو سخت موسمی حالات کا سامنا ہوگا—فائل فوٹو/ اے پی

اقوام متحدہ کے دفترِ رابطہ برائے انسانی امور (یو این او سی ایچ اے) نے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیلاب کے سبب جمع ہونے والے پانی کی سطح میں کمی کے پیش نظر سیلاب متاثرین اپنے آبائی علاقوں کی جانب واپس جا رہے ہیں یا جلد از جلد واپس لوٹ جائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی تازہ ترین رپورٹ میں یو این او سی ایچ اے نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں پانی کی سطح میں کمی دیکھی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: دادو: سیلابی پانی کی سطح میں کمی کے بعد 500دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی بحال

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سندھ میں کشمور، کندھ کوٹ، لاڑکانہ، گھوٹکی، سکھر، ٹنڈو الیار، شہید بینظیر آباد، ٹنڈو محمد خان، عمرکوٹ اور سانگھڑ کے اضلاع میں پانی کم ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر کے مشاہدے کی بنیاد پر بلوچستان میں سیلاب کے سبب جمع ہونے والے پانی میں تقریباً 300 مربع کلومیٹر، پنجاب میں 900 مربع کلومیٹر اور سندھ میں 4000 مربع کلومیٹر کی کمی واقع ہوئی ہے۔

موسم سرما نزدیک آتے ہی سیلاب زدگان کو سخت موسمی حالات کا سامنا ہوگا جس کے لیے مناسب پناہ گاہ، خیمے اور کمبل کی ضرورت ہوگی، تاہم سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریوں کے پھیلنے کی صورت میں بڑھتے ہوئے چیلنجز اب بھی برقرار ہیں۔

مزید پڑھیں: سیلابی پانی اتنا زیادہ ہے کہ ڈیموں میں جمع کرنا ممکن نہیں ہے، وزیر اعلیٰ سندھ

سندھ اور بلوچستان میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ صحت کے تباہ حال مراکز اور سیلاب کے سبب جمع ہونے والا پانی ہے۔

ضروری ادویات اور طبی سامان کے کم اسٹاک کی اطلاعات اور رسائی میں مشکلات ضرورت مند لوگوں کو صحت کی مناسب خدمات فراہم کرنے میں مزید چیلنج کا باعث ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ متاثرہ علاقوں میں تقریباً ساڑھے 6 لاکھ حاملہ خواتین کو زچگی کی سہولیات تک رسائی کے لیے چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ تقریباً 40 لاکھ بچے سبی سہولیات تک رسائی سے محروم ہیں، صفائی اور پینے کے پانی کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے صحت کی صورتحال بھی ابتر ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب زدہ علاقوں میں پانی کی سطح میں کمی، جاں بحق افراد کی تعداد 1500 سے متجاوز

دفترِ رابطہ برائے انسانی امور نے کہا کہ سندھ کے کئی علاقے سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں، پانی کی فراہمی کے بنیادی نظام اور صفائی ستھرائی کی سہولیات کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اندازاً 55 لاکھ لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے، صحت اور صفائی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے نتائج بھگتنے کا سب سے زیادہ خطرہ بچوں کو درپیش ہے۔

تقریباً ایک کروڑ بچوں کو 7 اکتوبر تک فوری طور پر جان بچانے والی امداد کی ضرورت ہے جن میں 40 لاکھ وہ بچے شامل ہیں جنہیں طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے اور 76 لاکھ بچے عدم تحفظ کے خطرات سے دوچار ہیں۔

غذائی تحفظ کی صورتحال مزید ابتر

رپورٹ کے مطابق سیلاب نے غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت کو بھی بڑھا دیا ہے، ایک اندازے کے مطابق دسمبر سے مارچ 2023 تک ایک کروڑ 46 لاکھ لوگوں کو خوراک کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہے جو کہ سیلاب سے پہلے کے تخمینے سے 100 فیصد زیادہ ہے، اس میں انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) فیز 4 (ایمرجنسی) میں 40 لاکھ افراد شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: سیلاب کے باعث پاکستان کو 10 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ

رپورٹ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آبپاشی کے نظام کو ہونے والے نمایاں نقصان کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں ایسے عوامل کے طور پر شمار کیا گیا ہے جو غذائی تحفظ کی صورتحال کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔

رپورٹ میں مویشیوں، فصلوں اور باغات کو بھی نمایاں نقصان پہننچے کی نشاندہی کی گئی ہے، مویشی پالنے والے تقریباً 31 فیصد افراد کم از کم ایک جانور کھو چکے ہیں، سندھ میں یہ تناسب سب سے زیادہ 44 فیصد ہے، اس کے بعد پنجاب (35 فیصد) اور خیبرپختونخوا میں (25 فیصد) ہے۔

سیلاب نے 7 فیصد فصلوں اور سبزیوں اور تقریباً 30 فیصد باغات کو بھی اضافی نقصان پہنچایا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں