جمعے کا دن صحافتی لحاظ سے بہت مصروف رہا۔ جمعے کی نماز پڑھ کر دفتر میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے اطلاع ملی کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کواثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا ہے۔

اس خبر پر نیو روم میں ایک شور مچ گیا، ہر طرف سے تبصرے ہونے لگے۔ ابھی اس حوالے سے نشریات شروع ہی ہوئیں تھی کہ اچانک آرمی چیف سے منسوب بیان نیوز چینلز کی اسکرین پر چھا گیا کہ وہ آئندہ 5 ہفتوں میں ریٹائر ہورہے ہیں۔ یوں بات چیت کا رخ اس جانب مڑ گیا۔

مگر مجھے اچھی طرح پتا تھا کہ ابھی ایک اور بڑی خبر آنا باقی ہے اور فوری طور پر میری چھٹی ہونے والی نہیں ہے۔ خیر رات گئے اس بات کا بھی اعلان ہوگیا کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے خارج کردیا گیا ہے۔ اب نیوز روم میں ایک مرتبہ پھر ہلچل مچ گئی اور اب ان افراد کے بیپر لائن اپ کرنا شروع ہوگئے جو ایف اے ٹی ایف سے متعلق بات چیت کرسکیں۔

تمام کام سے فارغ ہوکر نیوز روم میں بات چیت کا رخ اب ایف اے ٹی ایف کی جانب مڑگیا تھا۔ مجموعی طور پر جو سوال سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے وہ یہی تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے نکلنے کا پاکستان کو فائدہ کیا ہوگا؟ ہماری تو معیشت ہی غیر دستاویزی ہے اور اسی غیر دستاویزی معیشت کی وجہ سے پاکستان چل رہا ہے۔ تو کیا اب پاکستان میں پیسے کی ریل پیل ہوگی؟

مجھے نیوز روم میں اٹھائے جانے والے ان سوالات کے بعد احساس ہوا کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان میں بہت سی قانون سازی تو ہوئی ہے مگر اس کے باوجود اب بھی لوگوں کو اس بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان کی ایف اے ٹی ایف ’گرے لسٹ‘ میں شامل ہونے اور نکلنے کی تاریخ

ایف اے ٹی ایف کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں دستاویزی معیشت کو فروغ دیا جائے اور دنیا سے غیر دستاویزی یا گرے معیشت کو ختم کیا جائے۔ دنیا میں قانونی طور پر کمائے گئے پیسے کا فروغ اور غیر قانونی ذرائع سے سرمائے کی نقل وحرکت کو اس قدر مشکل بنادیا جائے کہ عوام سرمائے کی منتقلی کے لیے بینکاری ذرائع کا استعمال کریں اور نقد لین دین کی حوصلہ شکنی ہو۔

1990ء کی دہائی میں جب عالمگیریت کا نظریہ اپنے ابتدائی مراحل میں تھا تو اس وقت محسوس کیا گیا کہ اگر سرحد پار سرمائے نقل وحرکت کا ایک نظام وضع نہیں کیا گیا اور زیرِ زمین سرمائے پر قابو نہ پایا گیا تو اس سے حکومتیں کمزور اور غیر ریاستی عناصر مضبوط ہوجائیں گے، یوں سرمائے کی منتقلی پر نظر رکھنے اور غیر دستاویزی معیشت کے خاتمے کے لیے ایف اے ٹی ایف کا قیام عمل میں لایا گیا۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر جمعے کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں— تصویر: ڈان نیوز
ایف اے ٹی ایف کے صدر جمعے کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں— تصویر: ڈان نیوز

سرمائے کی غیر قانونی نقل و حرکت روکنےکے لیے نقد رقم کی شہر سے باہر اور بین الصوبائی نقل و حرکت کو روکنے کے اقدامات کرنا بھی ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نقد رقم کی منتقلی کے لیے اب حد قائم کردی ہے اور اس سے زائد جو بھی رقم ہوگی وہ بینکاری نظام کے ذریعے ہی منتقل کیے جاسکیں گے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اگر ایک مقررہ حد سے زائد نقد رقم شہر یا صوبے سے باہر لے جائی جارہی ہو تو اس کو اس وقت تک ضبط رکھا جائے جب تک اس رقم کے قانونی ہونے کا ثبوت پیش نہ کیا جائے۔

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے حوالے سے یہ امکان مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے کہ وہ بلیک لسٹ میں کسی بھی وقت شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس کے علاوہ اس سے پاکستان کی معیشت کو دستاویزی بنانے میں بھی مدد ملی ہے۔ غیر قانونی ذرائع سے کمائی گئی دولت کو استعمال کرنا اور اس سے سرمایہ کاری کرنا مشکل ترین ہوگیا ہے۔ جبکہ رقوم کی نقد نقل و حرکت کی حوصلہ شکنی سے ملکی بینکاری صنعت فروغ پائے گی اور بچتوں (سیونگز) کی شرح میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان میں عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہاں کی حکومت غریب اور عوام امیر ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ یہ مانا جاتا ہے کہ جس ملک کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 20 فیصد سے زائد ہو وہ ملک مالی طور پر مستحکم ہوتا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان سمیت 29 ملک ایسے ہیں جن کو عالمی مالیاتی اداروں سے بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہے اور ان تمام ملکوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں جی ڈی پی کے مقابلے ٹیکس کا تناسب بہت کم ہے۔

مزید پڑھیے: ایف اے ٹی ایف کیا ہے اور پاکستان کی معیشت سے اس کا کیا تعلق ہے؟

سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا تھا کہ پاکستان میں کم از کم 3 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے اور اگر پاکستان اس ٹیکس چوری پر قابو پالے تو اس کو بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی قرض پر انحصار نہیں کرنا پڑے اور بجٹ میں اس بات کی گنجائش پیدا ہو کہ عوامی فلاح، تعلیم اور صحت پر زیادہ اخراجات ہوسکیں۔ ایف اے ٹی ایف معیشت میں ٹیکس چوری کو ختم کرنے کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کرنے کا کہتا ہے۔

مفتاح اسمٰعیل نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں تقریباً 3 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہورہی ہے
مفتاح اسمٰعیل نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں تقریباً 3 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہورہی ہے

پاکستان میں لوٹی گئی دولت کی بیرونِ ملک منتقلی کے حوالے سے بہت بات ہوتی ہے اور یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ ملکی دولت کو لوٹ کر بیرونِ ملک بینکوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف بدعنوانی سے کمائی گئی دولت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ انسدادِ منی لانڈرنگ کے سخت قوانین کی ترویج اور ان پر عملدرآمد کا کہتا ہے تاکہ اگر کسی ملک سے لوٹی گئی دولت کسی دوسرے ملک منتقل کی گئی ہو تو اس کی نگرانی کی جائے اور سرحد پار ہونے کے بعد بھی اس دولت کے کمائے جانے کے طریقہ کار اور اس پر ادا کیے گئے ٹیکس کے حوالے سے تفصیلات دستیاب ہوں۔

آپ سب کو ایان علی کیس تو یاد ہی ہوگا۔ پاکستان سے بیرونِ ملک سفر کرنے والے بہت سے لوگ نقد زرِمبادلہ بیرون ملک بطور کیریئر منتقل کرتے تھے۔ اس حوالے سے کسٹمز حکام نے متعدد افراد کو روکا اور ان کی پروفائلنگ بھی کی جس کے بعد اس عمل میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح غیر قانونی طور پر سونے کو ملک سے باہر لے جانے کا عمل بھی بڑے پیمانے پر جاری تھا۔

جو ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ یا واچ لسٹ پر ہوں انہیں عالمی اداروں سے قرض ملنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک ایف اے ٹی ایف کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی ملک گرے لسٹ میں شامل ہوجائے تو اس کی معاونت کرنے کے حوالے سے یہ مالیاتی ادارے بھی ہاتھ سخت کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے حالیہ پروگرام میں سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑا۔

یہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے سخت ترین شرائط اور غیر لچکدار رویے کا سامنا رہا اور اب چونکہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل چکا ہے تو شاید اسی لیے اسحٰق ڈار آئی ایم ایف سے شرائط کو نرم کروانے کی بات کررہے ہیں کیونکہ پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کے گرے لسٹ سے خارج ہونے کے بعد عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی رویہ نرم ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ملک میں جاری دہشتگردی کی لہر نے پہنچایا۔ دہشتگردی کا کوئی بھی کام یا عمل سرمائے کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے 2001ء کے بعد اپنے چارٹر میں دہشتگردی کی مالی معاونت کو روکنے پر زور دیا۔ یہ بات اہم ہے کہ پاکستان نے اس وقت دہشتگردی پر قابو پایا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ انہیں سرمایہ فراہم کرنے والوں اور سہولت دینے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی اور ان کے خلاف کارروائی سے دہشتگردی کی روک تھام ہوسکی۔

پاکستان نے اس وقت دہشتگردی پر قابو پایا جب دہشتگردوں کو سرمایہ فراہم کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی گئی
پاکستان نے اس وقت دہشتگردی پر قابو پایا جب دہشتگردوں کو سرمایہ فراہم کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی گئی

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان میں اس کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے اگلے روز ایک تقریب میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ اور ایچ بی ایل کے صدر محمد اورنگزیب سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی اس حوالے سے بہت پُرجوش نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان میں جو عزم دیکھا گیا ہے وہ اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں (مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے ادارے، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، ایس ای سی پی وغیرہ) نے باہمی اشتراک سے کام کیا اور نہ صرف 4 سال کے عرصے میں قانون سازی کی بلکہ ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے سازگار ماحول کو بھی تشکیل دیا‘۔

مزید پڑھیے: ڈیفالٹ ہونے کے بعد کیا ممالک دوبارہ ترقی کرسکتے ہیں؟ جواب ہے جی ہاں!

محمد اورنگزیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان کو سیاسی طور پر اسی باہمی اشتراک کا مظاہرہ کرتے ہوئے چارٹر آف اکانومی (میثاق معیشت) کے حوالے سے کم از کم نکات پر اتفاق کرنا ہوگا۔

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ملک اگر اس حوالے سے توجہ نہ دیں تو پھر یہ ملک بلیک لسٹ میں شامل ہوسکتا ہے اور اسی خطرے کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری اس ملک کا رخ نہیں کرتی۔ اب چونکہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل گیا ہے تو امید ہے کہ سرحد پار سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔

مگر اہم ترین سوال یہ ہے کہ گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد کیا پاکستان میں فوری طور پر دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی؟ تو اس کا جواب ہے ’نہیں‘، بلکہ اس سے پاکستان میں نقد لین دین کے بجائے بینکاری نظام کے ذریعے رقوم کا لین دین ہوگا، ٹیکس چوری کے خلاف حکومت شکنجہ تنگ کرسکے گی، منشیات، بدعنوانی اور بلیک مارکیٹ سے حاصل کردہ کمائی کو دستاویزی نہیں کیا جاسکے گا اور ان تمام عوامل سے معیشت میں ایک دن میں تو نہیں بلکہ بتدریج بہتری آئے گی۔ ساتھ ساتھ حکومت کے ٹیکس میں اضافے کے علاوہ عوامی فلاح پر اخراجات میں بہتری کی امید رکھی جاسکتی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Amjad Durrani Engineer NewYork USA Oct 24, 2022 07:58pm
The question remains that”Who will bell the cat?”