سیلاب کی تباہ کاریاں، پاکستان کو جی 77 کی مالیاتی سہولت سے استفادے کی تجویز

25 اکتوبر 2022
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ سہولت سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے سرگرم مقامی تنظیموں کی مدد میں کافی مالی تعاون فراہم کرے گی—فائل فوٹو : اے ایف پی
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ سہولت سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے سرگرم مقامی تنظیموں کی مدد میں کافی مالی تعاون فراہم کرے گی—فائل فوٹو : اے ایف پی

ملک میں سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں کے سبب پاکستان کو بحالی کے اقدامات میں مدد کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک اور قرض لینا پڑے گا تاہم گزشتہ روز جاری ہونے والی ’آکسفیم‘ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو ’جی 77 پلس چائنا‘ کی تجویز کردہ 'نقصان سے نمٹنے کے لیے مالیاتی سہولت' سے فائدہ اٹھانے کی تجویز دی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’تاخیر کی لاگت‘ کے عنوان سے آکسفیم کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر نقصانات سے نمٹنے کی مالیاتی سہولت کو استعمال کیا جاتا ہے اور مناسب طریقے سے وسائل فراہم کیے جاتے ہیں تو اس سے پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے 29 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، عالمی بینک

یہ سہولت گرانٹس کی شکل میں دی جائے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ موسمیاتی تباہی کے نتیجے میں ملک قرضوں کے بوجھ میں مزید نہ دب جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ سہولت سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے سرگرم مقامی تنظیموں کی مدد کرنے کے لیے کافی مالی تعاون فراہم کرے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مقامی سطح پر اس بات کا تعین کرنے کے لیے مقامی سطح پر فیصلہ کیا جائے گا کہ کہاں فنڈنگ کی کمی ہے اور رقوم کیسے خرچ کی جائیں گی، یہ امداد ایسے وقت میں عالمی تعاون کا اہم استعارہ ہوگی جب سیلاب متاثرین کے لیے عالمی سطح پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اس سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

جی 77 پلس چین کی جانب سے کوپ 26 میں 'نقصان سے نمٹنے کے لیے مالیاتی سہولت' کی تجویز پیش کی گئی تھی، یہ موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع ردعمل کو یقینی بنانے کی حکمت علمی ہو گی جو مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں کے اصول کے مطابق ہے۔

مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ممالک میں بھوک میں 123 فیصد اضافہ

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس پاکستان میں تباہ کن سیلاب نے کم از کم 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو براہ راست متاثر کیا اور ملک کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، اس کے باوجود سیلاب متاثرین کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے محض 47 کروڑ 23 لاکھ ڈالر امداد کی اپیل کی گئی ہے (جو کہ اصل ضرورت کا صرف ایک فیصد ہے) اور اس میں سے تاحال صرف 19 فیصد فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔

دنیا بھر سے 100 سے زائد محققین، کارکنان اور پالیسی سازوں کے ایک گروپ کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ردِعمل ان لاکھوں لوگوں کی مدد کے لیے ناکافی ہے جو اپنی روزی روٹی اور گھر کھو چکے ہیں اور بھوک، بیماری اور نفسیاتی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 1991 سے ترقی پذیر ممالک میں ہر سال اوسطاً 18 کروڑ 90 لاکھ افراد شدید موسمی اثرات کا سامنا کرچکے ہیں، 1991 میں کم آمدنی والے ممالک میں موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے درکار اخراجات کے حوالے سے پہلی بار ایک طریقہ کار تجویز کیا گیا تھا۔

جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ 2022 کی پہلی ششماہی میں 6 فوسل فیول کمپنیوں نے مل کر ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلی سے جڑے بڑے واقعات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے کافی رقم اکھٹی کی اور ابھی بھی تقریباً 70 ارب ڈالر کا منافع باقی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہم مل کر موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے نمٹ سکتےہیں، وزیر خارجہ

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں سے 55 ممالک کو رواں صدی کی پہلی 2 دہائیوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نصف کھرب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا ہے۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ فوسل فیول انڈسٹری نے 2000 اور 2019 کے دوران موسمیاتی خطرات سے سب سے زیادہ دوچار 55 ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی زیادہ منافع کمایا۔

تبصرے (0) بند ہیں