اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں؟ ڈی جی آئی ایس آئی

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2022
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم پریس کانفرنس کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم پریس کانفرنس کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے غیرمتوقع ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کے فوج مخالف بیانیے، ارشد شریف قتل سمیت مختلف اہم نوعیت کے قومی امور پر تفصیلی گفتگو کی۔

ڈی جی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے عمران خان کا نام لیے بغیرانکشاف کیا کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع کی ’پرکشش پیشکش‘ دی گئی،مگر جنرل باجوہ نے یہ پیش کش ٹھکرادی، عجیب بات ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ سپہ سالار غدار ہے اور ان سے پس پردہ ملتے بھی ہیں‘۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد سینئر اور ممتاز صحافی ارشد شریف کی کینیا میں وفات اور اس سے جڑے حالات و واقعات کے بارے میں آپ کو کچھ آگاہی دینا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہ نے میڈیا سے براہ راست گفتگو کی ہے۔


مشترکہ پریس کانفرنس کے اہم نکات:

  • سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔
  • اے آر وائی نیوز نے فوج کو نشانہ بنانے میں ’اسپن ڈاکٹر‘ کا کردار ادا کیا؛ سی ای او سلمان اقبال کو پاکستان واپس لانا چاہیے۔
  • خیبر پختونخوا حکومت نے اگست میں ایک خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والا گروپ ارشد شریف کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔
  • ارشد شریف کو کسی نے دبئی جانے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
  • مارچ میں آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی ’پرکشش پیشکش‘ کی گئی تھی۔
  • غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ فرد واحد نہیں بلکہ طویل بحث کے بعد لیا گیا۔
  • لانگ مارچ یا اسلام آباد آنا سب کا جمہوری حق ہے۔
  • 27 مارچ کے بیانیے کا ’حقیقت سے دور دور تک‘ کوئی تعلق نہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر کی جا رہی ہے جب حقائق کا صحیح ادراک بہت ضروری ہے تاکہ فیکٹ، فکشن اور رائے میں تفریق کی جاسکے اور سچ سب کے سامنے لایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کی اہمیت اور حساسیت کی وجہ سے وزیر اعظم پاکستان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر آگاہ کیا گیا ہے بلکہ اس عوامل کا احاطہ کرنا بہت ضرری ہے جن کی بنیاد پر ایک مخصوص بیانیہ بنایا گیا اور اسی جھوٹے بیانیے کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اداروں اور ان کی لیڈرشپ حتیٰ کہ چیف آف آرمی اسٹاف پر بھی بے جا الزام تراشی کی گئی اور اس کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم اور اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی وفات ایک انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی لہٰذا جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو ارشد شریف صاحب نے اس پر بھی متعدد پروگرامز کیے، اس حوالے سے انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم سے کئی ملاقاتیں بھی کیں اور ان کے کئی انٹرویوز بھی کیے، جس کے نتیجے میں یہ بات بھی کی گئی کہ شاید انہیں مختلف میٹنگز کے منٹس اور سائفر بھی دکھایا گیا۔

27 مارچ کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانے پر حیرت ہوئی، ڈی جی آئی ایس پی آر

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے تاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا ابہام اور قیاس آرائی پیدا نہ ہو اور قوم سچ جان سکے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک سائفر کا معاملہ ہے تو آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں سابق وزیر اعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا تھا جس پر انہوں نے فرمایا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا گیا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔

’سفیر کی رائے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا‘

ان کا کہنا تھا کہ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آچکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے، پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 31 مارچ کے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پیشہ ورانہ انداز میں قومی سلامتی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ یہ پاکستانی سفیر کا ذاتی تجزیہ ہے اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہی لائحہ عمل قومی سلامتی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو تجویز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کی سائفر سے متعلق تحقیقات میں کسی بھی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے اور یہ شواہد ریکارڈ کا حصہ ہیں، ہم شواہد کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاہم یہ فیصلہ ہم نے اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ آئی ایس آئی کی جانب سے کی گئی ان تحقیقات کو منظر عام پر لائے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک حکومت کے خلاف آئینی، قانونی اور سیاسی معاملے کے بجائے ’رجیم چینج آپریشن‘ کا حصہ تھی۔

’ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا‘

انہوں نے کہا کہ پھر اس حوالے سے امریکا کے دنیا بھر میں رجیم چینج آپریشن کے حوالے دیے گئے اور ان کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا، پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف اور دیگر کئی صحافیوں سمیت سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ایک مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا جس کی حقیقت واضح ہوچکی ہے۔

’اے آر وائی چینل نے پاک آرمی اور قیادت کےخلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ذہن سازی کے ذریعے قوم اور افواج پاکستان میں، سپاہ اور قیادت کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان اور اس کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی، اس میڈیا ٹرائل میں ’اے آر وائی‘ چینل نے بالخصوص پاکستان آرمی اور اس کی قیادت کے حوالے سے ایک جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے میں ایک ’اسپن ڈاکٹر‘ کا کردار ادا کیا اور ایجنڈا سیٹنگ کے ذریعے فوج کے خلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے اجلاسوں اور اعلامیے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا حتیٰ کہ دوسرے اجلاس میں اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو کہ آئین پاکستان کے خلاف ہے، نیوٹرل اور غیرسیاسی جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا۔

’سوال یہ ہے کہ کیا دفتر خارجہ نے سائفر چھپایا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ اس تمام پروپیگنڈے کے باوجود ادارے اور خاص طور پر آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر خود مسائل کا حل نکالیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ یہ بھی کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا دفتر خارجہ نے سائفر چھپایا؟ جو اس وقت سائفر ہینڈل کرنے کے ذمہ دار تھے ان کے خلاف پھر کیا ایکشن لیا گیا؟ اگر نہیں لیا گیا تو کیوں نہیں لیا گیا؟ اور ان کے نام کیوں نہیں لیے جاتے؟

انہوں نے کہا کہ الفاظ کی ہیر پھیر، گمراہ کن اور جھوٹی خبریں پھیلا کر اداروں اور ان کی قیادت کو غدار ٹھہرا کر کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مرحوم ارشد شریف کے علاوہ دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے بھی سائفر کے حوالے سے باتیں کیں اور بہت سخت باتیں بھی کیں، ارشد شریف تو نومبر 2021 سے ’اے آر وائی‘ چینل کے پلیٹ فارم سے اداروں پر تنقید کررہے تھے جس میں انہوں نے مختلف اداروں کے حوالے سے سخت تنقیدی پروگرامز بھی کیے، لیکن اس کے باوجود ان کے حوالے سے ہمارے دل میں کسی قسم کے منفی جذبات تھے نہ ہیں، کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کر رہے تھے لیکن وہ پاکستان میں نہیں رہے، آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ تمام سائفر ڈرامے کے دوران ہم نے جب بھی کسی چینل یا صحافی سے بات کی تو یہی کہا کہ ادارے اور اس کی قیادت پر بنا ثبوت اور من گھڑت مفروضات پر غداری اور سازشوں کے الزامات نہ لگائے جائیں اور فوج کے غیرسیاسی رہنے کے مؤقف کو متنازع نہ بنایا جائے۔

’خیبر پختونخوا حکومت نے ارشد شریف کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کیا‘

انہوں نے کہا کہ آج دیکھنا یہ ہوگا کہ مرحوم ارشد شریف کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں، 5 اگست 2022 کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف کے حوالے سے ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا جس میں شبہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے گروپ نے اسپن بولدک میں ایک میٹنگ کی ہے جو ارشد شریف کو راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں میں نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اس حوالے سے وفاقی حکومت یا سیکیورٹی اداروں سے کسی قسم کی معلومات شیئر نہ کی گئیں کہ کیسے اور کس نے خیبر پختونخوا حکومت کو یہ اطلاع دی کہ ارشد شریف صاحب کو نشانہ بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا جس کا مقصد شاید ارشد شریف صاحب کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کرنا تھا جبکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن بار بار ان کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ ان کو خطرہ لاحق ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 8 اگست 2022 کو شہباز گل کے اے آر وائی چینل پر بغاوت پر اکسانے کے متنازع بیان کی تمام مکاتب فکر نے مذمت کی اور اسے ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قرار دیا اور 9 اگست کو انہیں گرفتار کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس متنازع اسپیشل ٹرانسمیشن کے حوالے سے اے آر وائی کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ عماد یوسف سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال نے عماد یوسف کی گرفتاری کے فوراً بعد ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو جلد از جلد پاکستان سے باہر بھیج دیا جائے، اس کے جواب میں انہوں نے سلمان اقبال کو بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کے لیے روانہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پھر اس حوالے سے متواتر یہ بیانیہ بنایا جاتا رہا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کردیا جائے گا، 9 اگست 2022 کو 4 بجکر 40 منٹ پر ارشد شریف کی کراچی سے دبئی کے لیے ایک ٹکٹ بک کی گئی جو کہ اے آر وائی گروپ کے اسسٹنٹ منیجر پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن عمران کے کہنے پر فضل ربی نامی ٹریول ایجنٹ نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد بُک کی، اس ٹریول پلان کے مطابق 9 ستمبر 2022 کو ارشد شریف کو پاکستان واپس آنا تھا۔

بابر افتخار نے کہا کہ 10 اگست کو باچا خان ایئرپورٹ سے ارشد ایمریٹس انٹرنیشنل کی پرواز ای کے-637 کے ذریعے صبح 6 بجکر 10 منٹ پر دبئی کے لیے روانہ ہوئے، ارشد شریف کو اس دوران خیبر پختونخوا حکومت نے مکمل پروٹوکول فراہم کیا اور سرکاری گاڑی میں انہیں ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کے عملے نے ہی تمام کاؤنٹرز پر ارشد شریف کی معاونت کی اور انہیں فلائٹ تک پہنچایا، اس حوالے سے اداروں کی جانب سے ارشد شریف کو روکنے کی کسی بھی قسم کی کوشش نہیں کی گئی، اگر حکومت روکنا چاہتی تو ایف آئی اے کے ذریعے یہ کر سکتی تھی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف اس وقت تک متحدہ عرب امارات میں رہے جب تک ان کے پاس وہاں کا قانونی ویزا تھا، وہ دبئی کا ویزا ایکسپائر ہونے پر وہاں سے کینیا روانہ ہوئے، ہماری اطلاع کے مطابق کسی نے سرکاری سطح پر ارشد شریف کو ملک سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا، تو وہ کون تھے جنہوں نے انہیں وہاں سے جانے پر مجبور کیا؟ اس سوال کا جواب لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ متحدہ عرب امارات روانگی سے منسلک دستاویزی معاملات کو کس نے انجام دیا، متحدہ عرب امارات میں ان کے قیام و طعام کا بندوبست کون کررہا تھا، کس نے انہیں مسلسل یہ باور کرایا کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا، کس نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی جان بیرون ملک خاص طور پر کینیا جیسے ملک میں محفوظ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بیانیہ یہ بھی بنایا جارہا ہے کہ جب ارشد شریف کو دبئی سے نکلوایا گیا تو صرف کینیا ہی ویزا فری ملک تھا جہاں وہ انٹری لے سکتے تھے حالانکہ دنیا میں 34 ایسے ممالک ہیں، ارشد شریف کیونکر کینیا پہنچے، ان کی میزبانی کون کر رہا تھا، ان کا پاکستان میں کس کس سے رابطہ تھا، ارشد شریف کی وفات سے منسلک کردار وقار احمد اور خرم احمد کون ہیں؟ ان کا ارشد سے کیا رشتہ تھا، کیا ارشد انہیں پہلے سے جانتے تھے یا کسی نے یہ راستہ استوار کرایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے ارشد شریف کے لندن میں ملاقات کے دعوے بھی کیے، یہ دعوے ان سے کس نے کروائے، کن بنیادوں پر یہ دعوے کیے گئے، ارشد شریف کی وفات ایک دور افتادہ علاقے میں ہوئی، کینیا پولیس نے تو انہیں پہچانا ہی نہیں تھا تو ان کی وفات کی خبر کس نے اور کس کو دی؟

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ کینیا کی پولیس اور حکومت نے اس کیس میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے لیکن دیکھنا ہے کہ کیا یہ واقعی غلط شناخت کا معاملہ ہے یا ٹارگٹ کلنگ ہے، تو بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس افسوسناک واقعے کی صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات بہت ضروری ہیں اور اس کے لیے ہم نے حکومت سے اعلیٰ سطح کے انکوائری کمیشن کی استدعا کی ہے، اس کمیشن کو اگر بین الاقوامی ماہرین، فرانزک اور آئی ٹی ماہرین کی ضرورت ہو تو ان کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو افسر سلمان اقبال کا ذکر بار بار آتا ہے، لہٰذا انہیں پاکستان واپس لاکر شامل تفتیش کرنا چاہیے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر چلائی جارہی مہم کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کی ناگہانی موت کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر مخصوص لوگوں نے الزامات کا رخ فوج کی طرف موڑنا شروع کردیا، اس سفاک موت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی وفات ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس نے پوری قوم کو رنج و غم میں مبتلا کردیا ہے، میں نے اب تک حاصل ہونے والی تفصیلات اور حقائق آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں، اب آپ پر فرض ہے کہ آپ ان تفصیلات کی تہہ تک پہنچیں اور تمام کرداروں کو سامنے لاکر حقائق قوم کے سامنے رکھیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم سب کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے، جب تک کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آجاتی، کسی پر الزام تراشی ہرگز مناسب نہ ہوگی، ہم ایک خوددار اور ایک آزاد قوم ہیں اور ہم میں سے ہر ایک نے پاکستان کی ترقی اور امن کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے اداروں پر اعتماد برقرار رکھیں، اگر ہم سے ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو ہم پچھلے 20 سالوں سے اپنے خون سے ان کو دھو رہے ہیں، یہ آپ کی فوج ہے، 35 سے 40 سال وردی پہننے کے بعد کوئی غداری کا طوق لٹکا کر گھر نہیں جانا چاہتے، ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ہم غدار اور سازشی ہرگز نہیں ہو سکتے، اس چیز کا ادراک سب کو کرنا ہو گا کیونکہ فوج عوام کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائبرڈ اور ففتھ جنریشن وارفیئر کی ایپلی کیشن کے مترادف ہوبہو عملدرآمد پاکستان میں ہو رہا ہے لہٰذا ہم اس سے نبرد آزما ہیں اور اس سے باہر نکلیں گے، ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہماری شناخت سب سے پہلے پاکستان ہے اور ہم نے بطور ادارہ اپنی قوم کو کبھی مایوس کیا ہے، نہ کریں گے، یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔

ادارے نے غیرقانونی کام کرنے سے انکار کیا، اس لیے یہ بیانیہ بنایا گیا، ڈی جی آئی ایس آئی

ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ آپ سب مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں، میں آپ سب کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، میری ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی ایک سال سے واضح ہے جس پر میں اور میری ایجنسی سختی سے پابند ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے اور میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا ہے، لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، جس کے جوان دن رات اس وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کی دفاع کا ہراول دستہ بن کر کام کرتے ہیں۔

’ملک میں فساد کا خطرہ ہو تو سچ کی طویل خاموشی ٹھیک نہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ جب ان جوانوں کو جھوٹ کی بنیاد پر بلاجواز تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لہٰذا اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے میں خاموش نہیں رہ سکتا، جب ایک جانب سے جھوٹ اتنی روانی سے بولا جائے کہ ملک میں فساد کا خطرہ ہو تو سچ کی طویل خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہے، میں کوشش کروں گا کہ بلاضرورت سچ نہ بولوں، قوم نے میرے منصب اور مجھ پر یہ بوجھ ڈالا ہے کہ میں ان رازوں کو اپنے سینے میں لے کر قبر میں چلا جاؤں لیکن جہاں ضرورت محسوس ہوگی میں وہ راز آپ کے سامنے رکھوں گا تاکہ اپنے جوانوں اور شہدا کا دفاع کر سکوں۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ لسبیلا میں ہمارے جوان اس مٹی کی خاطر شہید ہوئے لیکن ان کا بھی مذاق بنایا گیا، اس لیے میر جعفر، میر صادق اور غدار جیسے القابات کے پس منظر سے متعلق آپ کے پہلے سوال کا میں جواب دے دیتا ہوں۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کسی کو شواہد کے بغیر میر جعفر، میر صادق کہیں تو اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ بالکل 100 فیصد جھوٹ پر بنایا گیا نظریہ ہے، لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نظریہ کیوں بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میر جعفر کہنا، غدار کہنا، نیوٹرل کہنا، جانور کہنا یہ سب اس لیے نہیں ہے کہ میں نے، میرے ادارے نے یا آرمی چیف نے کوئی غداری کی، یہ اس لیے بھی نہیں کہ انہوں نے کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی کام کیا ہے، بلکہ یہ اس لیے ہے کہ ادارے نے غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرنے سے انکار کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بھی آپ کو بتادوں کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ چاہتے تو اپنے آخری 6 سے 7 ماہ بہت سہولت کے ساتھ گزار سکتے تھے، وہ یہ فیصلہ نہ کرتے اور اپنے آپ کو مقدم رکھ کر آرام سے نومبر میں ریٹائر ہو کر چلے جاتے، نہ کسی نے تنقید کرنی تھی نہ اتنی غلاظت ہونی تھی، لیکن انہوں نے ملک اور ادارے کے حق میں فیصلہ دیا اور اپنی ذات کی قربانی دی۔

آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کا انکشاف

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آرمی چیف پر اور ان کے بچوں پر کتنی غلیظ تنقید کی جاتی رہی لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کیا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جب وہ چلے جائیں تو ان کی لیگیسی میں ایک ایسا ادارہ ہو جس کا آئینی رول ہو، اس کا ایسا رول نہ ہو جسے متنازع بنایا جاسکے، لہٰذا اس چیز کی خاطر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی آپ کو بتادوں کہ مارچ میں آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی بھی پیشکش کی گئی، یہ پیشکش میرے سامنے کی گئی، یہ بہت پرکشش پیشکش تھی، لیکن انہوں نے اس بنیادی فیصلے کی وجہ سے یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی کہ ادارے کو متنازع رول سے ہٹا کر آئینی رول پر لانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو حق ہے اپنی رائے دینے کا، بحیثیت سپاہی میں اس حق کا احترام کرتا ہوں اور اس حق کا ہر ممکن حد تک تحفظ کروں گا، لیکن میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میرجعفر ہے تو ماضی میں آپ اتنی تعریفوں کے پُل کیوں باندھتے تھے، اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میر جعفر ہے تو آپ اس کی مدت ملازمت میں اتنی توسیع کیوں کر رہے تھے؟

’آئین اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے، کردار کشی کی نہیں‘

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ سپہ سالار غدار ہے اور میر جعفر ہے لیکن آپ ان کو کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو ساری زندگی اس ملازمت پر رہنا ہے تو رہیں، اگر وہ واقعی آپ کی نظر میں غدار ہیں تو پھر آج بھی ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں، مجھے آپ کے ملنے پر اعتراض نہیں ہے، آپ ملیے، ہمارا فرض ہے اس ملک کے ہر شہری کی آواز پر لبیک کہنا، لیکن یہ نہ کریں کہ آپ رات کی خاموشی میں بند دروازوں کے پیچھے ہم سے ملیں اور اپنی آئینی و غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں، یہ بھی آپ کا حق ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دن کی روشنی میں آپ اسی شخص کو غدار کہیں، آپ کے قول و فعل اور فکر و تدبر میں اتنا بڑا تضاد ٹھیک نہیں ہے۔

اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم بھی حکومت کے نیچے ایک ادارہ ہیں اور قانون کے مطابق ہمارے پاس جو چیزیں ہیں اس کے مطابق ہم کام کرتے ہیں، ہم نے پہلے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر کوئی فوج کے خلاف بات کرتا ہے یا کوئی تہمت لگاتا ہے تو جیسے آزادی اظہار رائے کا حق پاکستان کا آئین دیتا ہے اسی طرح کردار کشی کی اجازت آئین بالکل نہیں دیتا، خاص طور پر اداروں پر بات کرنے کی اجازت بھی پاکستان کا آئین نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون پر عملدرآمد حکومت پاکستان کو کرنا ہوتا ہے، اگر کسی ادارے پر کوئی انگلیاں اٹھا رہا ہے تو حکومت وقت نے اس کے خلاف ایکشن لینا ہے، اس مد میں جب بھی کوئی اس طرح کی چیز ہوئی ہے تو ہم نے حکومت کے ذریعے اس کو اپروچ کیا ہے، حکومت ان کے بارے میں جو بھی ایکشن لیتی ہے یہ ان کی صوابدید ہے، کسی کو گرفتار یا کچھ کرنا ہماری صوابدید نہیں ہے، ہم صرف حکومت سے درخواست کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی معلومات نہیں تھی، جب خیبر پختونخوا حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہمارے پاس ایسی کوئی انفارمیشن نہیں تھی، ادارے سے ایسی کوئی انفارمیشن شیئر نہیں کی گئی، اس کو بعد میں جانچا بھی گیا کہ یہ انفارمیشن کہاں سے آئی۔

انہوں نے کہا کہ (فیصل واڈا کی) کل والی پریس کانفرنس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں جو انکوائری کمیشن بنا ہے وہ ان تمام لوگوں اور شواہد کو دیکھے گا، اسی لیے میں نے کہا کہ اس کیس کی غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات ہوں، غیر ملکی ماہرین بھی اس میں شامل کیے جائیں، ٹیکنالوجی کے پہلو سے بھی اس کو دیکھیں، اگر یہ کیس اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچا تو اس کا بہت نقصان ہوگا، اس لیے اگر انہوں (فیصل واڈا) نے کل کوئی بات کی ہے اور اگر وہ اس کے بارے میں کلیئر ہیں تو مجھے یقین ہے کہ انکوائری کمیشن اس چیز کو دیکھے گا۔

’شہید ارشد شریف کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا‘

اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ارشد شریف شہید بہت قابل اور محنتی صحافی تھے، میں ذاتی طور پر ان کی عزت کرتا ہوں، ان کے سیاسی آرا سے کچھ احباب کو غالباً اختلاف ہے لیکن ان کے نام، کام اور لگن سے کسی کو انکار نہیں، مگر جو معلومات ہیں اور تحقیق کی بنیاد پر آپ کو بتا سکتا ہوں کہ شہید ارشد شریف کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے خاندان میں غازی بھی ہیں اور شہید بھی، جب وہ یہاں پر تھے تو ان کا اسٹیبلشمٹ سے اور میرے اپنے ادارے کے لوگوں سے رابطہ تھا، جب وہ باہر چلے گئے تب بھی رابطہ تھا، اس مہینے بھی انہوں نے میرے ساتھ کام کرنے والے (بی جی سی) جنرل صاحب سے رابطہ رکھا، اپنی واپسی کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کینیا میں اس کی انکوائری ہو رہی ہے، میں وہاں اپنے ہم منصب سے بھی رابطے میں ہوں، ان کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق شناخت کی غلطی کے باعث یہ حادثہ پیش آیا، اس پر حکومت پاکستان اور ہم شاید مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے حکومت نے ایک ٹیم بنائی ہے جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی، حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی بنایا ہے، میں نے دانستہ طور پر ان دوںوں فورمز سے آئی ایس آئی کے ارکان کے نام نکال لیے تاکہ قوم کے سامنے غیر جانبدار اور 100 فیصد شفاف تحقیقات ہوں اور جو بھی اس کا نتیجہ آئے گا اس سے ان شا اللہ ڈی جی آئی ایس پی آر آپ کو آگاہ رکھیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انفارمیشن کی شیئرنگ کو غلط رنگ نہیں دینا چاہیے، جہاں تک تنقید کی بات ہے تو تنقید ہر ایک کا حق ہے، بطور ادارہ تنقید پر کوئی مسئلہ نہیں ہوا، مسئلہ تب ہوتا ہے جب ایک چیز تنقید سے بڑھ کر الزام تراشی اور من گھڑت پروپیگنڈے کی ڈومین میں چلی جائے، یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمیں ہر قیمت پر احتراز برتنا چاہیے، خاص طور پر تب جب ہم اپنے اداروں کے بارے میں بات کر رہے ہوں۔

آرمی چیف کی تعیناتی اپنے وقت پر آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوگی، بابر افتخار

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی فورم نہیں ہے جہاں ہم ہر روز آکر کسی کی کہی ہوئی بات کا جواب دے سکیں، نہ ہمیں سوٹ کرتا ہے نہ ہمیں یہ کرنا چاہیے، اسی لیے اداروں کا دفاع حکومت وقت کرتی ہے لیکن تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کسی کو شک نہیں ہونی چاہیے کہ آرمی چیف کی تعیناتی اپنے وقت پر ہوگی اور آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آزادی اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، بیشک وہ رائے مجھ پر تنقید ہی کیوں نہ ہو، بحیثیت سولجر آپ کے اس حق کے تحفظ کا ذمہ دار ہوں، آپ صبح شام ہمارا موازنہ کیجیے لیکن پیمانہ یہ رکھیے کہ میں نے ملک اور قوم کے لیے کیا کیا ہے، یہ پیمانہ نہ رکھیے کہ میں نے آپ کی ذات اور سیاست کے لیے کچھ کیا ہے یا نہیں، یہ پیمانہ ٹھیک نہیں ہے، اگر میں ملک کے لیے کام ٹھیک نہیں کر رہا ہوں اور قوم کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا ہوں تو آپ براہ مہربانی مجھ پر تنقید کریں، میں بہت خوش اسلوبی سے اپنے کام میں بہتری لاؤں گا۔

اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مشہور مقولہ ہے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی کی رائے کا حق ہے لیکن اپنے مرضی کے حقائق کا نہیں، رائے کا اظہار کریں لیکن حقائق مینوفیکچر نہ کریں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بدقسمتی سے پروپیگنڈا اور ففتھ جنریشن وار فیئر کی اساس یہی ہو کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے اور ان کی بنیاد پر افواہیں اور پروپیگنڈا کیا جائے۔

کسی بھی انتخابات میں فوج کی مداخلت کا ثبوت نہیں ملا، ڈی جی آئی ایس پی آر

مارچ میں آرمی چیف کو غیرمعینہ مدت تک ملازمت کرنے والی شخصیت سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جتنی انفارمیشن انہوں نے شیئر کی ہے میرے خیال میں وہ اتنی ہی شیئر کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ اگر وہ شیئر کر سکتے تو ضرور شیئر کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2021 کے بعد سینیٹ کا الیکشن ہوا تھا جس میں آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا، اس کے بعد کسی بھی الیکشن میں آپ دیکھ لیں، ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ الیکشنز، بلدیاتی انتخابات دیکھ لیں، رواں برس ہونے والے انتخابات دیکھ لیں، کہیں پر بھی بھی فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا کوئی ثبوت کسی کو ملا ہو تو بتائیں، بار بار دھاندلی کا کہا جاتا ہے، ہم نے بارہا اس بارے میں بات کی کہ اگر کوئی ثبوت ہے تو لے کر آئیں، مجھے یقین ہے کہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بہت سے انٹرنیشنل چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان دنیا میں اسٹریٹجیک بنیادوں پر ایک اہم ملک ہے، اس کے چیلنجز ہمیشہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہر چیلنج کے ساتھ مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں، اس لیے عالمی سطح پر ہمارے لیے بہت سے مواقع بھی موجود ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے تمام ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، اور ان شا اللہ ہم اس سے نمٹ لیں گے، اس حوالے سے فکر کی کوئی بات نہیں ہے، اس بارے میں ہر ایک کی رائے ہوسکتی ہے جس کے مطابق آگے چلا جاسکتا ہے لیکن ہر کام کرنے کا ایک طریقہ موجود ہے۔

اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آپ نے سوال کیا کہ غیرمعینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کس نے کی؟ ظاہر ہے اس وقت جو حکومت تھی جو انہیں قانونی طور پر غیرمعینہ مدت تک توسیع دینے کی مجاز تھی اسی نے یہ پیشکش کی، یہ پیشکش اسی لیے کی گئی کیونکہ تحریک عدم اعتماد آچکی تھی۔

بیرونی چیلنجز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کا فیصلہ کرنا منتخب جمہوری حکومتوں کا کام ہے، ادارہ، فوج اور آئی ایس آئی کا کام ہے کہ اپنی معلومات کی بنیاد پر اپنا تجزیہ حکومت کے آگے رکھیں، فیصلہ ان کا ہے۔

’پاکستان کو بیرونی خطرات درپیش نہیں‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی خطرات وخدشات پر سیر حاصل گفتگو کسی اور نشست میں ہو سکتی ہے، سردست آپ کو یہ بتا دوں کہ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے کوئی خطرہ نہیں ہے، اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے، صرف یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ پاکستان کی فوج بہت مضبوط اور بہادر ہے، پاکستان کا دفاع اس لیے مضبوط ہے کیونکہ اس کے دفاع کی ذمہ داری 22 کروڑ عوام نے خود لی ہوئی ہے جو اس ملک پر اپنی جان قربان کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت خطرہ عدم استحکام سے ہے، یہ وہ چیز ہے جس پر میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عدم استحکام کی کیا وجوہات ہیں، جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے ہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتا ہے، اگر ہم نے تاریخ سے نہیں سیکھا تو چند دہائیوں پیچھے چلے جائیں جب ہمارے 2 حصے تھے لیکن اس باوجود ہم الگ ہوگئے کیونکہ ہم نے نفرت اور تقسیم کو زیادہ ابھارا، یہی چیز ہمارے معاشرے اور مملکت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، عدم استحکام کی وجہ اس کے معاشی حالات بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب میں خود ڈی جی آئی ایس آئی بنا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ کیا ہے، میں نے کہا کہ میری نظر میں یہ ہمارے معاشی مسائل ہیں، جنہوں نے سوال پوچھا وہ میری رائے سے متفق نہیں ہوئے، ان کی نظر میں حزب اختلاف پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔

’سوشل میڈیا پر غلط زبان کے استعمال سے پاکستان کو خطرہ ہے‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی و معاشرتی عدم برداشت ہے، سوشل میڈیا پر بڑے بڑے قابل احترام اور معزز لوگ جو زبان استعمال کرتے ہیں اس سے عدم استحکام آتا ہے، پاکستان کو خطرہ اس سے ہے، باہر سے الحمد اللہ ہمارے دشمنوں کو معلوم ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، عدم استحکام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آئینی و قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے، جب ہم چور دروازے اور غیر آئینی و غیرقانونی راستے اختیار کرتے ہیں تو اس سے عدم استحکام آتا ہے، آئی ایس آئی نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ادارہ صرف وہ کام کرے گا جو قومی امنگوں کا مظہر ہے اور اسی انداز میں کرے گا جو آئین میں لکھا ہے، اس سے باہر نہیں جائے گا۔

نیوٹرل کے القابات سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پر آر نے کہا کہ نیوٹرل کا لفظ ہم نے خود کبھی استعمال نہیں کیا، ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم اے پولیٹکل (غیر سیاسی) ہیں جو کہ ہمارا آئینی کردار ہے، اس کو نیوٹرل کہہ دینا، جانور سے تشبیہ دے دینا اور دین کا حوالہ دینا مناسب نہیں، میں کوئی عالم دین نہیں ہوں، لیکن جتنا دین مجھے سمجھ آتا ہے میرا خیال ہے اس کردار کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ہمارا آئینی کردار ہے اور پاکستان کا آئین شریعت کے عین مطابق ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، پاکستان کا آئین ایک اسلامی مملکت کا آئین ہے، اسی آئین میں یہ لکھا ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں، اسی آئین پر ہم حلف لیتے ہیں۔

’اپنی غلطیوں کا قرض برسوں سے ادا کررہے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئیں، یہ ایک تاریخ ہے، اسی تاریخ کی وجہ سے ہم پر انگلیاں اٹھتی ہیں لیکن ان غلطیوں کا قرض ہم برسوں سے ادا کر رہے ہیں، ادارے نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ سیاسی مداخلت یا کسی حق میں مداخلت آگے نہیں چل سکتا اور ان شا اللہ آپ دیکھیں گے کہ ہم اس فیصلے پر قائم رہیں گے۔

ایوان صدر میں ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ یہ ملاقاتیں ضرور ہوئیں، میں ان ملاقاتوں میں کوئی ممانعت نہیں دیکھتا کیونکہ اس کی نیت ملک میں سیاسی استحکام اور ٹھہراؤ لانا اور رویوں میں تلخی کو کم کرنا تھا، لیکن وہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں، وہ کیوں نہ پہنچیں اور اس کے علاوہ کون سی ملاقاتیں ہوئیں؟ اس حوالے سے میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ بلاضرورت سچ شر ہے۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل سے متعلق قبل از وقت رائے کام کرنا مناسب نہیں ہے، تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے، آپ کا یہ حق نہیں بنتا کہ یہ کس نے کروایا اور کیوں کروایا، ہم نے آپ کے سامنے حقائق اس لیے رکھے کیونکہ انگلیاں اٹھ رہی تھیں، مفروضات جنم دیے جارہے تھے اور عجیب و غریب قسم کی باتیں شروع ہوگئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ خدشہ تھا کہ یہ باتیں انکوائری پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہیں، اس لیے ہم یہ حقائق سامنے لائے ہیں، کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا، ہاں ہم نے یہ ضرور کہا ہے کہ جو جو لوگ اس سے منسلک ہیں اور جن جن کا نام مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان شواہد میں سامنے آرہا ہے ان کو شامل تفتیش کرنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، ان شا اللہ رپورٹ آئے گی تو حقائق سامنے آجائیں گے، اس وقت تک کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کسی پر الزام تراشی کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ سطح کے انکوائری کمیشن کا مقصد یہی ہے کہ وہ کسی کو بھی بلا سکتے ہیں، اور ایسا ہونا بھی چاہیے، اس واقعے کے تمام شواہد اور پہلوؤں کو پرکھنا ہوگا، جنہوں نے بھی اس بارے میں کوئی معلومات شیئر کی ہے یا ان کے پاس کوئی انفارمیشن ہے مجھے یقین ہے کہ ان کو بلایا جائے گا اور ان کو کمیشن کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ فوج کے غیرسیاسی رہنے کا فیصلہ کرنے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے آئندہ 15 سے 20 برسوں میں اس ادارے کی قیادت سنبھالنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج پریس کانفرنس کے لیے اس لیے مجبور ہوا کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ جھوٹ فراوانی سے بولا جارہا ہے اور ہمارے نوجوان ذہن اس کو قبول کرتے جارہے ہیں۔

’اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی کہ ارشد ملک نہ چھوڑیں تو کیا وہ باہر جاسکتے تھے؟‘

انہوں نے کہا کہ میں اس چیز سے اتفاق نہیں کروں گا کہ ارشد شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے افسران نے دھمکایا ہو، اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی کہ وہ ملک نہ چھوڑیں تو کیا وہ ملک چھوڑ سکتے تھے؟ ان کے سیاسی رائے سے اختلافات کی گنجائش رہی ہے لیکن ہمارے افسران کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات رہے۔

صحافیوں کو دھمکی آمیز فون کالز سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ یہ بات بھی اکثر جھوٹ پر مبنی ہے، آج کل ایسی کمیونی کیشن ایپس موجود ہیں جو آپ کو اس قابل بناتی ہیں کہ آپ نمبر ظاہر کیے بغیر کال کرلیں، اگر آپ کو شک ہے تو پولیس اور ایف آئی اے میں شکایت کریں، وہ فرانزک کرکے بتادیں گے اصل میں یہ نمبر کس کا ہے، کچھ ہفتے قبل آپ نے میڈیا پر دیکھا کہ کچھ شرارتی لوگ خود ایک دوسرے کو ایسی کالیں کر رہے تھے، اس لیے ہمارے لوگ ذرا فنکار بھی ہیں۔

لانگ مارچ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف نے یہ نہیں کہا تھا کہ اسلام آباد میں کسی جتھے کو داخل نہیں ہونے دیں گے، انہوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، لانگ مارچ سب کا جمہوری حق ہے، اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں، حکومت کو کسی وقت فوج کی ضرورت پڑی تو آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں گے۔

عمران خان کو لانے میں ادارے کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ اس پر سیر حاصل گفتگو پھر کبھی ہو سکتی ہے۔

وزیراعظم کے غیرملکی دوروں کے دوران لانگ مارچ کے اثرات سے متعلق سوال کے جواب میں جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس کے اثرات ضررو ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنے کی ضرروت ہے کہ دنیا کے تمام ملکوں میں اس طرح کے جمہوری اجتماع ہوتے ہیں، جمہوریت میں اس طرح کی اونچ نیچ آتی رہتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے ملک کا وقار کم ہوجائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس پس منظر کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی کچھ چیزوں کے حوالے سے بات کر سکتے ہیں میرا نہیں خیال کہ میرے پاس اتنی معلومات ہوتی ہے اس لیے اس وقت اس امر کی ضرورت تھی کہ ان کو یہاں پر ہونا چاہیے لیکن ڈی جی آئی ایس آئی کا پریس کانفرنس کرنا روٹین کا حصہ نہیں بنے گا۔

میرے خلاف غلیظ مہم چلائی گئی، جنرل ندیم انجم

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ مارچ میں میری ذات کے خلاف جھوٹی اور غلیظ مہم چلائی گئی، مجھے ایجنسی سے بھی فون آیا کہ آپ کے خلاف ٹوئٹر پر جھوٹی مہم چلائی جارہی ہے ہم کیا کریں، میں نے ان کو کہا کہ جب کسی ٹوئٹ کے ری ٹوئٹ 8 ہزار ملین سے بڑھ جائیں تو مجھے بتائیے گا، اس سے پہلے آپ میری ذات کی فکر نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جو بھی ملاقاتیں ہوئیں اس میں ہم نے یہی بات کی کہ آپ نے جو کرنا ہے پاکستان کے آئین اور قانون کے اندر رہ کر کرنا ہے، ہم کوئی ایسی مدد فراہم نہیں کر سکتے جو اس کے مطابق نہ ہو۔

ارشد شریف کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل میں تھرڈ پارٹی کے ملوث ہونے کے امکان موجود ہیں، لیکن تحقیقات مکمل ہونے تک اس وقت ہم کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ کوئی حکومت اپنے دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے اس طرح کے پروپیگنڈا کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ چند روز قبل ایک کانفرنس میں اداروں کے خلاف نعرے بازی ہوئی تو وزیراعظم اور دیگر وزرا نے مذمت کی اس لیے یہ نہیں کہوں گا کہ حکومت دانستہ خاموش ہے۔

صحافیوں کو لفافہ کہے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ پاکستان کے صحافی بہت مشکلات اور خطرات کے باوجود اپنا کام بہت اچھا کر رہے ہیں، صحافیوں کو لفافہ کہنے کے خلاف ہوں، ہمارا کوئی صحافی ایسا نہیں جسے میں بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

جنید طاہر Oct 27, 2022 01:49pm
پریس کانفرس کم اور ساس بہو کے شکوے شکایتیں ذیادہ لگ رہی ہیں
KHAN Oct 27, 2022 06:31pm
ایسا لگ رہا ہے کہ 75 سال ایک ہاتھ سے تالی بجائی گئی۔
Asad Oct 28, 2022 01:32am
Why did the honest and so professional general accept the 3 years extension. Why did he agree to meet a liar like imran khan thru back door channels…
idris Oct 28, 2022 09:57am
if the candidate was a mischief maker , why was he selected to be the prime....?