فنڈنگ میں تاخیر کے سبب ڈیجیٹل مردم شماری تعطل کا شکار

30 اکتوبر 2022
موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ڈیجیٹل مردم شماری کے معاملے کو سب سے کم اہمیت دی گئی—فوٹو : اے ایف پی
موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ڈیجیٹل مردم شماری کے معاملے کو سب سے کم اہمیت دی گئی—فوٹو : اے ایف پی

حکومت کی جانب سے ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز مقررہ مدت اور اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے گزشتہ 2 اجلاسوں میں فنڈز کی منظوری میں تاخیر کے سبب تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر میں سابقہ حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کا معاملہ آگے بڑھایا اور رواں برس اسی مہینے میں اس کے آغاز کا شیڈول طے کیا، بعد ازاں اسے آئندہ برس مارچ تک موخر کر دیا گیا لیکن ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل اس نظرثانی شدہ مدت میں مکمل ہوتا بھی دکھائی نہیں دے رہا جس کی بنیادی وجہ اس منصوبے کے لیے تقریباً 30 ارب روپے کے بجٹ کی منظوری میں تاخیر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے نادرا کے پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز

17 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ساتویں مردم شماری اور ہاؤسنگ مردم شماری کے لیے فنڈز کے حصول کی سمری مؤخر کر دی۔

متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے مطابق ڈیجیٹل مردم شماری فروری تک شروع کرنے اور مارچ 2023 کے آخر تک اسے مکمل کرنے کی اگلی ڈیڈ لائن بھی ناقابل عمل نظر آتی ہے، گنتی کے لیے ٹیبلٹ کمپیوٹرز کی خریداری کی پہلی ڈیڈ لائن کو بھی پورا کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

تاخیر کی وجوہات انتظامی اور سیاسی دونوں ہیں، دونوں صورتوں میں فائدہ موجودہ حکومت کو ہوگا کیونکہ مردم شماری میں تاخیر اسے آئندہ برس اگست تک اپنی بقیہ مدت مکمل کرنے کا جواز دے گی۔

اپریل میں مخلوط حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ڈیجیٹل مردم شماری کے معاملے کو سب سے کم اہمیت دی گئی، پہلی تاخیر مردم شماری کی پری ٹیسٹنگ میں ہوئی جو جون تک مکمل ہونا تھی لیکن یہ جولائی میں شروع ہوئی اور اگست تک مکمل ہوئی۔

مزید پڑھیں: ملک میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے معاہدہ

ڈیڈ لائن میں توسیع کے سیاسی اثرات بھی مرتب ہوں گے کیونکہ سابقہ حکومت کی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے آخری اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہی کرائے جائیں گے۔

ڈیجیٹل مردم شماری میں تاخیر اور 2017 کی مردم شماری کے مطابق اگلے انتخابات کے انعقاد کا امکان حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم-پاکستان اور پیپلزپارٹی کے ساتھ عہد سے دستبرداری کے مترادف ہوگا جنہیں گزشتہ مردم شماری کے نتائج پر شدید تحفظات ہیں۔

انتظامی پہلو کا جائزہ لیں تو ڈیجیٹل مردم شماری کے انعقاد میں تعطل کی وجہ کمپنیوں کی جانب سے تاخیر بھی ہے جنہوں نے ابتدائی طور پر ہارڈ ویئر خریدنے کے لیے بولی میں حصہ لیا لیکن ناکام رہیں اور چند ہفتوں بعد اس منصوبے کو چھوڑ دیا۔

نتیجتاً ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت نے نادرا سے کہا کہ وہ اس عمل کو مکمل کرے اور اس منصوبے کے لیے درکار آلات کی فراہمی کی ذمہ داری لے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا ڈیجیٹل مردم شماری کا انتظار کیے بغیر حلقہ بندیاں شروع کرنے کا فیصلہ

نادرا کے مطابق اب تک کُل 12 لاکھ 6 ہزار میں سے 30 ہزار ٹیبلیٹس خریدے جا چکے ہیں، پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس اور نادرا کے حکام نے ڈان کو بتایا کہ مزید 25 ہزار ٹیبلیٹس کی جلد آمد متوقع ہے۔

ہارڈ ویئر خریدنے اور سافٹ ویئر تیار کرنے کے لیے نادرا کے 8 ارب روپے کے مجوزہ بجٹ میں سے 2 ارب 30 کروڑ روپے نادرہ نے اپنے وسائل سے خرچ کیے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے طے شدہ فنڈز کی تاحال منظوری نہیں دی گئی، اس حوالے سے ایک عہدیدار نے کہا کہ ’ہم توقع کر رہے ہیں کہ حکومت قومی مفاد کے اس منصوبے کے لیے فنڈز کی منظوری دے دیگی‘۔

منصوبے کا دوسرا حصہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس سے متعلق ہے جو ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے اساتذہ کو تربیت دے گا، اس مشق کے لیے مختص رقم تقریباً 22 ارب روپے ہے۔

پری ٹیسٹنگ پائلٹ پروجیکٹ جولائی میں شروع کیا گیا تھا اور اگست میں تمام صوبوں اور آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کی 83 تحصیلوں کے 429 مردم شماری بلاکس میں مکمل ہوا، ڈیجیٹل مردم شماری کے پائلٹ مرحلے میں استعمال ہونے والے ٹیبلیٹس کی تعداد 500 ہے۔

مزید پڑھیں: ’اگلی مردم شماری کا سوالنامہ منظوری کیلئے سی سی آئی کو ارسال کردیا گیا‘

پری ٹیسٹنگ میں تاخیر کے باوجود پائلٹ پراجیکٹ کا نتیجہ کامیاب رہا، نادرا کے ایک عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

تمام ٹیبلیٹس خریدنے کی حتمی مدت دسمبر ہے، تاہم ذرائع نے کہا کہ ’اب اس عمل کو مکمل کرنا مشکل نظر آرہا ہے، حکومت آئندہ انتخابات کا انعقاد 2017 کی مردم شماری پر کرائے گی‘۔

نئی ٹائم لائنز کے مطابق ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام مارچ کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی مکمل حد بندی کرنے کے لیے مزید 4 سے 6 ماہ کا وقت درکار ہوگا، اس کے مطابق حد بندی جولائی تک مکمل ہو جائے گی اور موجودہ اسمبلی اگست میں اپنی 5 سالہ مدت پوری کرے گی۔

موجودہ حکومت کے لیے ان نظرثانی شدہ ٹائم لائنز پر عمل کرنا ایسے وقت میں ایک چیلنج ہو گا جب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان فوری عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرنے کے لیے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کر چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں