وزارت دفاع کی درخواست پر صحافی ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2022
صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کو کینیا میں پولیس کی گولی لگی تھی جس کی تحقیقات جاری ہے —فائل فوٹو: فیس بک
صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کو کینیا میں پولیس کی گولی لگی تھی جس کی تحقیقات جاری ہے —فائل فوٹو: فیس بک

وفاقی کابینہ نے وزارت دفاع کی درخواست پر معروف صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے قتل سے متعلق ’حقائق کی تحقیقات‘ کے لیے تین رکنی کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دے دی۔

وفاقی کابینہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے ریٹائرڈ جسٹس عبدالشکور پراچہ کی سربراہی میں تشکیل دیے کمیشن میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس عثمان انور اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل عمر شاہد حامد شامل ہوں گے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیشن ’پاکستان کمیشن انکوائری ایکٹ 2017‘ کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی ٹیم کی تشکیل نو، آئی ایس آئی افسر کو نکال دیا گیا

وفاقی کابینہ کی طرف سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ صحافی ارشد شریف کے قتل کے بعد وزارت دفاع نے حقائق معلوم کرنے کے لیے کینیا حکومت کے تعاون کے ساتھ ساتھ واقعے کی اعلیٰ سطح کی انکوائری کرنے کی تجویز دی ہے۔

نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کے بعد مسلح افواج کے خلاف غیرضروری افواہیں، خطرناک قیاس آرائیاں اور غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے جہاں انکوائری کمیشن 30 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ حکومت کے پاس جمع کرائے گی جس کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کا تعاون حاصل ہوگا۔

واضح رہے کہ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاک فوج نے حکومت کو صحافی ارشد شریف کے قتل کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے لیے گزارش کی۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف ’قتل‘: تحقیقات کیلئے فوری جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا مسترد

گزشتہ ہفتے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ ہم نے حکومت کو اس معاملے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی گزارش کی ہے تاکہ تمام قیاس آرائیاں ختم ہوں‘۔

قبل ازیں، وفاقی حکومت نے بھی صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ٹیم تشکیل دی تھی۔

ابتدائی طور پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر اطہر واحد، آئی بی کے عمر شاہد حامد اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے لیفٹینٹ کرنل سعد احمد پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی بعدازاں، اس کمیٹی سے آئی ایس آئی افسر کو نکال کر 2 عہدیداروں پر مشتمل کمیٹی برقرار رکھی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف قتل: ادارے پر الزام تراشی سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے تحقیقات ہونی چاہیے، پاک فوج

ڈان کی رپورٹ کے مطابق کینیا میں موجود ٹیم نے صحافی ارشد شریف کے ڈرائیور خرم احمد سے ملاقات کی ہے جو کہ قتل کے وقت گاڑی چلا رہے تھے جبکہ ارشد شریف کے بھائی وقار احمد بھی ان کے ساتھ تھے تاہم، آئی بی یا ایف آئی اے کی طرف سے تاحال اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ کمیٹی نے ڈرائیور سے تفتیش کی یا نہیں۔

'ارشد شریف قتل معاملہ'

خیال رہے کہ معروف صحافی اور اینکر ارشد شریف کو 23 اکتوبر کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

کینیا کی پولیس نے نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نیروبی کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا تھا کہ ’50 سالہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف گاڑی نمبر کے ڈی جی 200 ایم پر سوار مگادی، کاجیادو کی حدود میں پولیس کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہوگئے تھے‘۔

تاہم، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس میں قتل کے ارد گرد کے واقعات کو دوبارہ بیان کیا گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ ارشد شریف کی ہلاکت کے وقت ان کی گاڑی میں سوار ایک شخص نے پیرا ملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی تھی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ

نیشن میڈیا گروپ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پولیس نے بتایا کہ ’ان کو جی ایس یو افسران نے روکا تھا جو ایک چوری کی گئی گاڑی پکڑنے کے لیے وہاں موجود تھے جو ممکنہ طور پر اس علاقے میں دیکھی گئی تھی جہاں ارشد شریف کی موت واقع ہوئی۔

رپورٹ میں پولیس کے متضاد بیانات پر روشنی ڈالی گئی جہاں پولیس نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے بھائی نے چیک پوسٹ پر احکامات کی خلاف ورزی کی مگر بعدازاں پولیس نے بیان میں کہا کہ ارشد شریف کے بھائی نے پولیس افسران پر گولی چلائی اور انہیں زخمی کیا جس کے بعد پولیس نے جوابی فائرنگ کی۔

صحافی ارشد شریف کا جسد خاکی گزشتہ ہفتے پاکستان پہنچا تھا جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد اسلام آباد کے ایچ-9 قبرستان میں انہیں سپرد خاک کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں