خواجہ سراؤں کے حقوق: ملازمتوں سے متعلق وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار

اپ ڈیٹ 02 نومبر 2022
وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوئی — فائل فوٹو/ ریڈیو پاکستان
وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوئی — فائل فوٹو/ ریڈیو پاکستان

وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق مقدمات کی سماعت میں ملازمتوں کی فراہمی سے متعلق وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔

وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوئی، جسٹس سید محمد انور کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران وزارت انسانی حقوق نے خواجہ سراؤں کو دی گئی ملازمتوں سے متعلق رپورٹ جمع کرائی، وزارت انسانی حقوق کے مطابق 36 وزارتوں سے خواجہ سراؤں کو دی گئی ملازمتوں کا ڈیٹا موصول ہوسکا، کسی بھی وزارت نے کوٹے پر عمل نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں سماعت، متعدد افراد کو فریق بننے کی اجازت

وفاقی شرعی عدالت نے ملازمتوں کے بارے میں وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دی، عدالت نے ہدایت دی کہ وزارت انسانی حقوق آئندہ سماعت سے قبل مفصل رپورٹ جمع کرائے۔

اس دوران صوبہ سندھ اور پنجاب کی جانب سے ملازمتوں کے کوٹہ پر عمل کی رپورٹس جمع کرائی گئی، رپورٹ کے مطابق سندھ میں ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کے تحت کوئی ملازمت نہیں دی گئی، صوبہ پنجاب کی رپورٹ نامکمل ہے، تمام اضلاع کو ڈیٹا نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس سید محمد انور نے ریمارکس دیے کہ قانون کا مطلب خواجہ سراؤں کے حقوق حقوق کا تحفظ کرنا تھا، 2018 میں قانون بنا اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: نادرا کا ایک ماہ میں جنس کی تبدیلی کا ’رول 13 ون‘ ختم کرنے کا فیصلہ

اس موقع پر سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ یہ قانون آنے کے بعد 28 ہزار لوگوں نے نادرا سے رجوع کیا، پانچ سال کے دوران خواجہ سراؤں کی فلاح کے لیے بڑے فنڈز آئے، عدالت حکومت سے رپورٹ طلب کرے کہ فنڈز کہاں خرچ ہوئے۔

اس دوران عدالت نے ہدایت کی کہ وزارت انسانی حقوق سینیٹر مشتاق احمد کے اٹھائے گئے نکات پر بھی تحریری جواب دے۔

اس دوران فرحت اللہ بابر کو پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش ہونے کا اجازت نامہ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی جب کہ جے یو آئی (ف) کے وکیل نے دلائل دینے کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کی، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 10 نومبر تک ملتوی کردی۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ

یاد رہے کہ یہ قانون 25 ستمبر 2012 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا، اس قانون میں کہا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے، خواجہ سرا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح حسب معمول زندگی گزار سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ خود منظور کیا تو عدالت کیا لینے آئے ہیں؟ عدالت کا جے یو آئی وکیل سے سوال

اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا، یہ درخواست اسلامی ماہر قانون ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں ’ہرمافروڈائٹ بچوں‘ کی آزادی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ بھیک مانگنے، ناچنے اور جسم فروشی کے بجائے ’باعزت طریقے‘ سے زندگی بسر کر سکیں۔

قومی اسمبلی نے ٹرانس جینڈر کو قانونی شناخت دینے کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ منظور کیا تھا، جس کے تحت خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک کرنے والا شخص سزا کا حقدار ہوگا۔

رواں سال ستمبر میں وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو ’اسلامی احکام کے منافی‘ قرار دینے کے لیے چیلنج کردیا گیا تھا اور اس کے بعد متعدد افراد نے کیس میں فریق بننے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2018 میں نافذالعمل ہونے والے اس قانون کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں