وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت نے فوری طور پر چھ ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کیے جانے والے داسو ہائیڈرو پراجیکٹ کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس منصوبے کو بغیر کسی تاخیر کے شروع کیا جائے گا جبکہ 14 ارب ڈالر سے تعمیر کیے جانے والے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں 10 سے 12 سال لگ جائیں گے۔

پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بیک وقت دونوں منصوبوں پر کام کریں گے، دیامر بھاشا ڈیم پر کام کرتے وقت ہم وقت ضائع کیوں کریں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ یو ایس ایڈ نے امریکی کانگریس کو بھاشا ڈیم کی تکنیکی اسٹڈی کیلیے 20 ملین ڈالر دینے پر آمادہ کر لیا ہے جو ایک بہت بڑی پیشرفت ہے، اس سے قبل کسی نے بھی اس منصوبے کے حوالے سے بات نہیں کی، اس کے بعد ڈیم کی تعمیر کیلیے مزید فنڈ دیے جائیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کا مرکزی سرمایہ کار ایشیائی ترقیاتی بینک اس منصوبے کے اسٹرکچر پر کام کر رہا ہے، یہ ایک بڑا منصوبہ ہے اور کوئی ایک ادارہ اس پر سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ورلڈ بینک اس کا جائزہ لے گا اور پھر اس منصوبے کو شکل دینے میں دو سے تین سال لگیں گے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے داسو ہائیڈرو پراجیکٹ پر فوری طور پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے چھ ماہ میں کسی کاغذی یا تکنیکی کارروائی کے بغیر شروع کیا جا سکے گا اور تین سال کے اندر اس کے دو سے تین یونٹ بجلی کی فراہمی شروع کر دیں گے۔

ڈار نے کہا کہ انہوں نے امریکی حکام اور ورلڈ بینک کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ اس منصوبے کیلیے پاکستان کو ہندوستان سے این او سی درکار نہیں۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ ورلڈ بینک نے 4320 میگا واٹ کے داسو منصوبے کو 4500 میگا واٹ کے دیامر بھاشا ڈیم پر ترجیح دینے کی ہدایت کی ہے جس سے 8.5 ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ تربیلا ڈیم اور براجوں کی لائف بھی بڑھ جائے گی۔

انہوں نے افغانستان کے وزیر خزانہ کے ساتھ اپنی ملاقات کے متفقہ نکات کے بارے میں بتایا کہ دونوں فریقین نے افغانستان کے دریائے کنڑ پر 1500 میگا واٹ کا منصوبہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان وزیر نے زیر تعمیر پشاور طورخم روڈ کو پشاور کابل روڈ بنانے کی تجویز دی جسے پاکستان نے تسلیم کرتے ہوئے فزیبلٹی رپورٹ مانگی ہے۔

اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان نے تاجکستان، کرغزستان، افغانستان اور پاکستان کے مابین کاسا کے نام سے بجلی منصوبہ شروع کرنے کی رضامندی لینے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے اور اب یہ منصوبہ 100 میگا واٹ کی جگہ  1300 میگا واٹ کا ہو گا، اس ضمن میں سی ڈبلیو پی اور کابینہ سے منظوری لی جائے گی جس کے بعد بین الحکومتی کمیٹی کام شروع کر دے گی۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان، طورخم جلال آباد روڈ پر کام دوبارہ شروع کرنے پر راضی ہو گیا ہے، جب 2008 میں اس منصوبے کو روکا گیا تو اس کا 58 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا، اس کے علاوہ طورخم جلال آباد 170 کلو میٹر کے ریلوے ٹریک کے منصوبے کیلئے ورلڈ بینک تکنیکی فزیبلٹی پر کام کر رہا ہے، اسی طرح چمن سے سین بولدک ریلوے ٹریک کا منصوبہ مکمل کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان نے 6.6 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کیلیے آئی ایم ایف کی پانچ میں سے ساڑھے چار شرائط پوری کیں جبکہ بقیہ نئی مالیاتی پالیسی کے قیام کے ساتھ پوری کر دی جائیں گی۔

ڈار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جو ملکی مفاد میں نہ ہو، ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل نہ ہوتے تو پھر بھی یہ اقدامات کرتے کیونکہ ملک کیلیے مالیاتی نظم و نسق کا قیام ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے روپے کی قدر کم کرنے کی شرط قبول نہیں کی، آئی ایم ایف کی انتظامیہ نے پروگرام کا ایجنڈا جمع کرا دیا ہے جبکہ حکومت پاکستان نے اپنی آمادگی کا خط بھی ارسال کر دیا ہے، اس حوالے سے آئی ایم ایف کے بورڈ کی میٹنگ آئندہ ماہ ہو گی جس میں پاکستان کیلئے نظرثانی شدہ کوٹہ بھی طے کیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے اگلے تین سالوں کے دوران 12 بلین ڈالرز حاصل ہونگے جس سے پاکستان کو قرضوں کی واپسی کے حوالے سے بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کرنے میں مدد ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور معیشت کی بحالی کے حوالے سے اقدامات کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں جبکہ پاکستان پر بین الاقوامی اداروں کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے۔

 وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے گزشتہ مالی سال کو اقتصادی اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال کل ریونیو 2982 ارب روپے رہا جس میں ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی 2231 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو 751 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، مجموعی خرچ 4816 ارب روپے رہا جبکہ سبسڈی کی مد میں 368 ارب روپے خرچ کئے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی 344 بلین روپے جبکہ صوبائی371 ارب رہا، موجودہ حکومت نے قرضوں کا حجم بتدریج کم کر جی ڈی پی کے 57.5 فیصد تک لانے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا ہے جس میں سالانہ 2 فیصد کے حساب سے کمی لائی جائے گی۔

اس موقع پر وفاقی سیکریٹری خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور وزارت خزانہ و اقتصادی امور کے دیگر سینئر افسران بھی موجود تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں