معیشت کی سست رفتاری کے باعث حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں کمی کا سامنا ہے اور ٹیکس کلیکشن میں کمی کو پورا کرنے کے لیے اضافی محصولات اکٹھا کرنے کی مشکل سے دوچار ہے تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو (ای ایف ایف) ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی کے تحت جاری 9ویں جائزے کی تکمیل کے لیے میز پر لایا جا سکے اور دیگر عالمی قرض دہندگان سے بھی زرمبادلہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر جمیل احمد سے ملاقات کی جس میں زر مبادلہ کی شرح، مرکزی بینک اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقررہ ہدف سے زیادہ منافع سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا تاکہ قومی سطح پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے نفاذ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔

سمجھتا جاتا ہے کہ وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے درمیان ہونے والی ملاقات میں حالیہ مہینوں میں بینکوں کی جانب سے شرح مبادلہ میں ہیرا پھیری کرنے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائیوں اور اصلاحات سے متعلق امور پر بھی بات چیت ہوئی۔

اسحٰق ڈار کی میٹنگ کے دوران صوبائی چیف سیکرٹریز نے ملک بھر میں جی ایس ٹی کو ہم آہنگ کرنے پر متفقہ طور اتفاق کیا، اس کے نفاذ سےایک ارب 40 کروڑ ڈالر کی غیر ملکی آمد کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول بات چیت اکتوبر کے آخری ہفتے میں طے تھی، پھر ان مذاکرات کا شیڈول آگے بڑھا کر 3 نومبر کردیا گیا تھا تاہم ٹیکس کلیکشن اور اخراجات میں بڑے خلا کی وجہ سے مذاکرات شیڈول کے مطابق شروع نہیں ہوسکے اور نہ ہی تاحال کوئی نئی تاریخیں طے کی گئیں۔

دیگر چیزوں کے علاوہ، آمند و اخراجات کا فرق بڑھ گیا ہے جب کہ بجٹ اور زرعی سپورٹ کے علاوہ برآمدی شعبوں کو 100 ارب روپے سے زیادہ کی اضافی سبسڈی دی گئی ہے، محصولات میں بھی کمی آئی ہے جب کہ اکتوبر میں وصولی کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا جس کی وجہ درآمدات میں کمی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیر خزانہ کو اسٹیٹ بینک سے وفاقی حکومت کا منافع بجٹ میں 300 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں تقریباً 371 ارب روپے تک بڑھنے کی توقع تھی، اسی طرح، حکومت نے پہلے ہی ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ (ایچ او بی سی) پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں 20 روپے فی لیٹر اضافے کی منظوری دے دی تھی اور اس سے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے سبسڈی مختص کرنے پر بھی قابو پانے کی توقع تھی۔

یہ کچھ ایسے اقدامات ہیں جن سے مجموعی طور پر محصولات کی کمی پوری کی جاسکتی ہے جب کہ حکومت برآمد کنندگان اور کاشتکاروں کے لیے خصوصی پیکجز کو تبدیل کرنے کو سیاسی طور پر چیلنج سمجھتی ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ حالیہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں