سپریم کورٹ کے جسٹس یحیٰی آفریدی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے حکم پر اختلافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج سے متعلق عدالت عظمیٰ کا حکم غیر متعلقہ اور دائرہ کار سے باہر ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پرمشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے پیر (7 نومبر) کو عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی تھی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں عدالت نے قرار دیا کہ مدعا علیہ عمران خان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے مؤکل 3 نومبر کو قاتلانہ حملے کے بعد حال ہی میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان پر حملہ، سپریم کورٹ کا آئی جی پنجاب کو 24گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم

حکم نامے میں بتایا گیا کہ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ میری ان کے ساتھ ایک مختصر سی ملاقات ہی ہوئی ہے، اگرچہ میں نے عدالت کے حکم کی روشنی میں ان کی جانب سے جواب کا مسودہ تیار کر لیا ہے لیکن وہ اتنا موزوں نہیں ہے۔

حکم نامے کے مطابق عدالت کے استفسار پر انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) پنجاب نے بتایا ہے کہ تاحال اس واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج نہیں کی گئی ہے، عدالت نے اپنے حکم نامے میں آبزرویشن دی ہے کہ آئی جی کا فرض ہے کہ وہ قانون کے مطابق کام کریں اور قابل دست اندازی پولیس کیس میں ایف آئی آر کا اندراج ایک لازمی قانونی تقاضا ہے، کل اس حوالے سے عدالت موزوں کارروائی کرکے اس کا جائزہ لے گی۔

تحریری حکم نامے کے مطابق عدالت نے عمران خان کے وکیل کو مناسب جواب داخل کرنے کے لیے مزید چند دن کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت اگلے عدالتی ہفتے تک ملتوی کردی۔

تاہم بینچ کے رکن جسٹس یحیٰی آفریدی نے 2 لائنوں پر مشتمل ایک اختلافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ انہیں حکم نامے کے پیراگراف نمبر 2 میں دی گئی آبزرویشنز سے متعلق اس عدالت کے دائرہ اختیار کے حوالے سے سنگین ترین تحفظات ہیں کیونکہ وہ موجود کیس سے متعلق نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ 7 نومبر کو سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب پولیس کو سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ 90 گھنٹے گزر گئے لیکن مقدمہ درج نہیں ہوا، اس کے بغیر تفتیش کیسے ہوگی؟ ایف آئی آر کے بغیر تو شواہد تبدیل ہوسکتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ واقعہ ہوا ہے، آپ بتائیں اب تک ایف آئی آر کیوں داخل نہیں ہوئی، ہمیں وقت بتائیں کب تک ایف آئی آر درج کریں گے؟

آئی جی پنجاب نے کہا تھا کہ ہم نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کی، انہوں نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایک شخص کی واقعے میں شہادت ہوئی ہے، اس واقعے کی بھی لواحقین کی شکایت پر ایف آئی آر درج ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمہ درج نہ ہونے کی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے، قانون کے مطابق کام کریں، عدالت آپ کے ساتھ ہے، آپ افسران سے تفتیش کروائیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آئی جی صاحب! جب تک آپ عہدے پر ہیں کوئی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا، آپ کے کام میں کسی نے مداخلت کی تو عدالت اس کے کام میں مداخلت کرے گی۔

انہوں نے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کو 24 گھنٹوں میں حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مقدمہ درج نہ ہوا ازخود نوٹس لیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں