ارشد شریف کیس کے دو اہم ثبوت جائے وقوع سے غائب ہونے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2022
کینین پولیس کا خیال ہے کہ صحافی کے زیراستعمال اشیا واقعہ کے دوران چوری کرلی گئی تھیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
کینین پولیس کا خیال ہے کہ صحافی کے زیراستعمال اشیا واقعہ کے دوران چوری کرلی گئی تھیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

کینین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق صحافی ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور آئی پیڈ سمیت دو اہم ثبوت جائے وقوع سے غائب ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کینین اخبار ’دی اسٹار‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صحافی ارشد شریف کے قتل کے تقریباً 20 دن بعد بھی کوئی اہم پیش رفت نہ ہوسکی، کینین پولیس ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور دیگر اشیا تلاش کرنے میں مصروف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: معروف صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کینیا میں ’قتل‘

دوسری جانب پاکستان کے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ڈپٹی عمر شاہد حامد اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر اطہر واحد پر مشتمل پاکستانی تحقیقاتی کمیٹی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے اس وقت کینیا میں موجود ہے۔

پاکستانی تفتیش کاروں نے ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور آئی پیڈ کے غائب ہونے پر کینین پولیس سے سوال کیا جبکہ پولیس کا خیال ہے کہ صحافی کے زیراستعمال اشیا واقعے کے دوران چوری کرلی گئی تھیں۔

اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے تھے جہاں ان کے میزبانی دو بھائی خرم احمد اور وقار احمد کررہے تھے جبکہ ارشد شریف کو جب گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تو وہ خرم احمد کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔

کینیا نیوز چینل ’دی نیشن‘ کے مطابق پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے شوٹنگ رینج پر موجود ہدایت دینے والوں کے نام اور نمبر مانگے ہیں، پاکستان کے تفتیش کاروں کی درخواست کے بعد کینیا کی حکومت نے دونوں بھائیوں سے واقعے کے دوران موجود افراد کی تفصیلات فراہم کرنے کا کہا تھا۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کی گاڑی پولیس کی رکاوٹ کے باوجود نہ رکنے پر فائرنگ کا نشانہ بنی، کینین پولیس

اسی دوران جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل والی شب کینیا کی شوٹنگ رینج پر 10 امریکی انسٹرکٹر اور ٹرینر بھی موجود تھے جبکہ دی نیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ وقار احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ اُن کی ارشد شریف سے صرف ایک بار ملاقات ہوئی تھی، اس سے قبل انہوں نے ارشد شریف کو شوٹنگ رینج میں کھانے کے لیے مدعو کیا تھا۔

وقار احمد نے بتایا کہ ’کھانے کے بعد ارشد شریف میرے بھائی خرم احمد کے ساتھ گاڑی میں چلے گئے اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد گاڑی پر فائرنگ کی اطلاع ملی تھی۔‘

دونوں بھائیوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ارشد شریف اپنی فیملی کے ساتھ مستقل طور پر کینیا منتقل ہونا چاہتے ہیں، انہوں نے اپنے ویزا میں توسیع بھی کی تھی۔

ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ’دی نیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے شوہر کو کینیا چھوڑنے کا کہا تھا۔

جویریہ نےبتایا کہ مجھے کینیا محفوظ ملک نہیں لگتا تھا اس لیے میں نے ارشد شریف کو کسی دوسرے ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا کہا تھا’۔

ارشد شریف کی اہلیہ نے بتایا کہ ان کی فیملی ارشد شریف کے قتل کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا سوچ رہی ہے، انہیں لگتا ہے کہ پاکستان اور کینیا کی حکومت انہیں کبھی انصاف فراہم نہیں کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں پیش رفت، 2 گواہان کے بیانات قلمبند

خیال رہے کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ ارشد شریف کو ٹارگٹ حملے میں قتل کیا گیا ہے جبکہ کینین میڈیا کی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔

دوسری جانب کئی ٹی وی چینل یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ جائے وقوع پر گاڑی روکنے کے دوران ارشد شریف کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔

تاہم میڈیا پر چلنے والی تصاویر میں ارشد شریف کی گاڑی میں مبینہ طور پر گولیوں کے نشانات موجود تھے جبکہ ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات کا بھی ذکر تھا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ارشد شریف پر تشدد کی شہادتوں سے پاکستان کی حکومت کا مؤقف غلط ثابت ہوا۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ ’پاکستان کی حکومت دعویٰ کررہی تھی کہ ارشد شریف کا قتل شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا جبکہ ان رپورٹس کے بعد حکومت کا مؤقف غلط ثابت ہوا، صحافی کے قتل کی مکمل تحقیق انتہائی ضروری ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں