صدر مملکت اور آرمی چیف کی بیک وقت لاہور میں موجودگی، افواہوں کا بازار گرم

12 نومبر 2022
جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ شب ایک رات لاہور میں ٹھہرے—فائل فوٹو : اے ایف پی
جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ شب ایک رات لاہور میں ٹھہرے—فائل فوٹو : اے ایف پی

ملک میں جاری حالیہ سیاسی تناؤ کے پیش نظر تمام نظریں ایک بار پھر لاہور کی جانب اٹھ گئی ہیں جہاں گزشتہ شب صدر عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید بیک وقت موجود تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال ایسے وقت میں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے جب وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بھائی اور سربراہ مسلم لیگ (ن) سے نئے آرمی چیف کے تقرر پر مشاورت کے بعد لندن سے وطن واپس لوٹ رہے ہیں جبکہ وزیر آباد حملے میں زخمی ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پہلے ہی لاہور میں موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی کمان کی تبدیلی سے قبل ملاقاتوں کا سلسلہ جاری، اہم فیصلے متوقع

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے فوج کے ساتھ جاری ’بیک چینل مذاکرات‘ میں صدر عارف علوی ایک کلیدی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں، وہ پہلے ہی جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کے درمیان ایوان صدر میں کم از کم ایک براہ راست ملاقات کروا چکے ہیں۔

پی ٹی آئی ذرائع نے تصدیق کی کہ صدر عارف علوی گزشتہ ہفتے عمران خان کی عیادت کے لیے پہنچے جہاں انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کا پیغام عمران خان تک پہنچایا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ ملتان گیریژن میں تعینات فوجیوں اور افسران سے الوداعی ملاقات کی، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ’آرمی چیف نے مادر وطن کی خدمت میں ان کی غیر معمولی پیشہ ورانہ اہلیت اور فرائض سے لگن کو سراہا‘۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ سے عمران خان کی روانگی نے قیاس آرائیوں کو جنم دے دیا

الوداعی دورے سے واپس آتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ شب ایک رات لاہور میں ٹھہرے، پی ٹی آئی ذرائع نے تینوں کے درمیان ملاقات یا صدر عارف علوی کے ذریعے عسکری قیادت کی جانب سے کوئی نیا پیغام بھیجے جانے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ عارف علوی ہفتے کو (آج) عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

یہ ملاقاتیں ان اطلاعات کے پیشِ نظر ہو رہی ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی تناؤ کم کرنے کے لیے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

قبل ازیں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ فوج کی جانب سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) پر پیچھے ہٹنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاکہ فوجی کمان میں تبدیلی کا عمل ہموار انداز میں آگے بڑھ سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں