محض ٹوئٹس سے فوج میں بغاوت نہیں ہو سکتی، اسلام آباد ہائی کورٹ

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2022
جسٹس بابر ستار نے کہا ناقابل فہم ہے کہ کس طرح ایک ٹوئٹ عوام میں خوف یا بے چینی کا باعث بن سکتی ہے — فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس بابر ستار نے کہا ناقابل فہم ہے کہ کس طرح ایک ٹوئٹ عوام میں خوف یا بے چینی کا باعث بن سکتی ہے — فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک حکم میں کہا ہے کہ ایک ٹوئٹ نہ تو مسلح افواج کے اندر بغاوت کو ہوا دے سکتی ہے اور نہ ہی عوام میں خوف و ہراس پیدا کر سکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کاشف فرید نامی شہری کے خلاف متنازع ٹوئٹ کے ذریعے مبینہ طور پر 'مسلح افواج کو بدنام کرنے' کے الزام میں ایف آئی آر کو بھی خارج کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: اعظم سواتی متنازع ٹوئٹ کیس: 'کسی سیاسی شخصیت کا بیان مسلح افواج پر اثر انداز نہیں ہوسکتا'

کاشف فرید نامی شہری کے خلاف یہ ایف آئی آر مبینہ طور پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور فوج کے خلاف ایک ٹوئٹ کرنے پر درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزم نے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 500، 501 اور 505 کے تحت جرائم کا ارتکاب کیا۔

عدالت عالیہ نے اپنے حکم میں ریمارکس دیے کہ ’غیر مقبول‘ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ فوج یا عوام میں بغاوت کو ہوا نہیں دے سکتی۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ مؤقف ناقابل فہم ہے کہ کسی غیر معروف ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ایک ٹوئٹ کرنے سے فوج کے افسران میں بغاوت پیدا ہوسکتی ہے یا اس کی وجہ سے وہ اپنے فرائض سے غافل ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کے خلاف متنازع ٹوئٹ: اعظم سواتی کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی اسی طرح سے ناقابل فہم ہے کہ کس طرح سے ایک ٹوئٹ عوام میں خوف و ہراس یا بے چینی کا باعث بن سکتی ہے جس سے متاثر ہو کر عوام ریاست یا لوگوں کے خلاف جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے یہ بھی قرار دیا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے پاس پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 505 کے تحت درج کسی بھی مقدمے کا نوٹس لینے کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔

دوسری جانب پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 500 ہتک عزت کے معاملے میں کسی فرد کے نام کی اشاعت سے متعلق ہے لیکن مذکورہ ٹوئٹ میں کسی فرد کا نام نہیں لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کے خلاف متنازع ٹوئٹ: اعظم سواتی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

عدالت عالیہ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے ٹوئٹر ہینڈل کا مالک ہونے سے انکار کیا ہے اور اگر مذکورہ فرد ہی اس ٹوئٹر اکاؤنٹ کا یوزر تھا تو بھی اس مقدمے میں مذکورہ بالا سیکشنز کے تحت ایف آئی آر درج نہیں کی جاسکتیں۔

حکم نامے میں ایف آئی آر کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کارروائی نے ایف آئی اے کی جانب سے غیر قانونی اقدام کیا۔

ان ریمارکس اور مشاہدات کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں