لاہور ہائیکورٹ: سینیارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے درخواست سماعت کیلئے مقرر

اپ ڈیٹ 15 نومبر 2022
لاہور میں میں درخواست پر سماعت 16 نومبر کو ہوگی—فائل/فوٹو: ڈان
لاہور میں میں درخواست پر سماعت 16 نومبر کو ہوگی—فائل/فوٹو: ڈان

لاہور ہائی کورٹ میں چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی سینیارٹی کی بنیاد پر کرنے کے لیے دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی گئی۔

لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے نے طارق عزیز ایڈووکیٹ کی وساطت سے نجمہ احمد ایڈووکیٹ کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کر دی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل زمان خان 16 نومبر کو درخواست پر سماعت کریں گے۔

نجمہ احمد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت، وفاقی سیکریٹری قانون، صوبائی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ، صوبائی سیکریٹری قانون اور سینئر قانون دان اعتزاز احسن کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں، آرمی چیف کی تقرری کا روایتی طریقہ کار غیرقانونی اور غیر آئینی ہے جبکہ وفاقی حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری قانون کے مطابق کرنے کی پابند ہے۔

لاہور ہائی کورٹ سے کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس اور تمام ہائی کورٹس میں سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس تعینات کیے جاتے ہیں لیکن یہی اصول چیف آف آرمی کی تعیناتی پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

درخواست میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے تجویز کردہ ناموں میں سےآرمی چیف مقرر کرنے کا اختیار وزیراعظم کو ہے لہٰذا لاہور ہائی کورٹ سینئر ترین فوجی افسر کونیا آرمی چیف مقرر کرنے کا حکم دے۔

خیال رہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ 28 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور جیسے جیسے اہم تعیناتی کی تاریخ قریب آرہی ہے، اس کے حوالے سے قیاس آرائیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اس سے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ نام پر ابھی مشاورت ہی شروع نہیں ہوئی تاہم 18 یا 19 نومبر سے مشاورت کا آغاز ہوگا۔

آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل

آئین پاکستان کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق صدر، وزیر اعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے۔

رولز آف بزنس کا شیڈول 5-اے وزیر اعظم کو آرمی چیف کی منظوری کے لیے پیش کیے جانے والے کیسز کی وضاحت کرتا ہے جس کے مطابق فوج میں لیفٹیننٹ جنرل یا دفاعی سروسز میں اس کے مساوی عہدے پر تقرر وزیراعظم، صدر سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل جس طرح ہوتا ہے، اس کی وضاحت قواعد کی کتاب میں معمولی طور پرکی گئی، نہ ہی کسی رینک کے افسر کی ترقی کے لیے اس مبہم شرط کے سوا کوئی خاص معیار مقرر کیا گیا ہے کہ فوج کی قیادت کے لیے منتخب جنرل ایک کور کی کمان کر چکا ہو۔

روایت یہ ہے کہ جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) چار سے پانچ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست، ان کی ذاتی فائلوں کے ساتھ وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جو انہیں وزیرِ اعظم کے پاس بھیجتی ہے تاکہ وہ جس افسر کو اس عہدے کے لیے موزوں تصور کریں اسے منتخب کریں۔

قانونی طور پر وزارت دفاع نام وزیر اعظم کو پیش کرنے سے قبل ناموں کی جانچ کر سکتی ہے لیکن ایسا عام طور پر نہیں ہوتا اور وزارت محض ایک ڈاک خانے کے طور پر کام کرتی ہے۔

اس کے بعد جرنیلوں کی قابلیت پر وزیراعظم کے دفتر یا کابینہ میں غور کیا جاتا ہے، اس کے بعد اس معاملے میں وزیراعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ ’غیر رسمی مشاورت‘ کرتے ہیں، ان کے اپنے تاثرات بھی اہمیت رکھتے ہیں اور وہ اپنے قریبی مشیروں سے بھی اس حوالے سے بات چیت کرتے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا تھا کہ فوج جو بھی نام بھیجے گی، اس میں سے دیکھیں گے، ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے، ابھی یہ عمل شروع ہی نہیں ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں