لکھاری، مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری، مصنف اور صحافی ہیں۔

اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے پالیسی معاملات پر مشاورت کے لیے وزیرِاعظم شہباز شریف نے لندن کے جو متواتر دورے کیے ان سے واضح ہے کہ فیصلوں کا اصل اختیار کس کے پاس ہے۔

انہوں نے ایک بار پھر اس تصور کو تقویت دی ہے کہ وزیرِاعظم کا قومی معاملات سے متعلق فیصلہ سازی میں کوئی حقیقی کردار نہیں ہے۔ حتیٰ کے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے بھی وزیرِاعظم کو اپنے بڑے بھائی کی منظوری کی ضرورت ہے۔

بیرونِ ملک سے آنے والے احکامات پر چلنے والی اس حکومت نے ملک میں موجود طاقت کے خلا کو مزید وسیع کردیا ہے۔ مخلوط حکومت بھی اس حوالے سے الجھاؤ کا شکار نظر آرہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بے اختیار وزیرِاعظم کے پاس ملک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ یہ ناخوشگوار صورتحال ہے۔ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلنے والے اس نظام کی حیثیت بہت مجروح ہوئی ہے۔

وزیرِاعظم شہباز شریف کا مصر سے واپسی پر اچانک لندن کا رخ کرلینا سب کے لیے حیران کن تھا۔ اس وقت کہ جب ملک سنگین معاشی و سیاسی بحرانوں کا شکار ہے، وزیرِاعظم پاکستان نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے سابق وزیرِاعظم نواز شریف سے اہم پالیسی معاملات پر مشاورت میں 4 دن گزار دیے۔ بتایا جا رہا ہے کہ سب سے اہم معاملہ جو لندن بیٹھک میں زیرِ بحث رہا، وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا تھا۔

یہ ملکی سلامتی سے متعلق ایک حساس معاملہ ہے جسے میرٹ کی بنیاد پر نمٹایا جانا چاہیے لیکن اس مشاورت نے اسے مزید سیاسی بنا دیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں کے حالیہ بیانات نے ایک بار پھر ان شکوک کو ہوا دی ہے کہ جماعت من پسند شخص کو اس اہم ترین عہدے پر تعینات کرنا چاہتی ہے۔ اگرچہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے لندن میں آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے مشاورت کی تردید کی ہے لیکن وزیرِاعظم کا لندن میں طویل قیام اور بات چیت سے تو الگ ہی تاثر ملا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے دیے جانے والے متضاد بیانات سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

جیسا کہ امکان تھا، ان حالیہ واقعات نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس بیانیے کو مضبوط کیا ہے جس میں وہ حکومت کے ارادوں پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔ فریقین کو اس بات کا احساس نہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو سیاسی بنا دینے سے ادارے کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ بُرا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس حساس عہدے پر تقرری سے متعلق میڈیا پر آئے روز بحث کی جاتی ہے۔

دونوں ہی فریقین اس تنازعہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں حکمران جماعت کو زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما یہ جانے بغیر کہ اس سے ان کی اپنی حکومت ہی کمزور ہوگی، جان بوجھ کر لندن ملاقات کا بار بار ذکر رہے ہیں تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ نواز شریف اب بھی بااختیار ہیں۔ شاید شریف خاندان کی اندرونی سیاسی کشمکش بھی وہ وجہ ہوسکتی ہے جو نواز شریف کو ملکی فیصلہ سازی میں اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وزیرِاعظم، مسلم لیگ (ن) کے سربراہ سے مشاورت کے سلسلے میں لندن گئے۔ وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی وہ سینیئر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ لندن روانہ ہوگئے تھے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ سیاسی فیصلہ سازی کے اختیارات وزیرِاعظم شہباز شریف کے پاس نہیں بلکہ نواز شریف کے پاس ہیں۔

اقتدار کے یوں 2 حصوں میں تقسیم نے حکومت کی پالیسیوں، خاص طور پر معیشت کو سنبھالنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ اسحٰق ڈار جنہیں نواز شریف کا مکمل اعتماد حاصل ہے، انہوں نے کھلے الفاظ میں سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے فیصلوں پر تنقید کی، جنہوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اقدامات کیے۔ یہ حقیقت ہے کہ مفتاح اسمٰعیل نے اس بحران میں کچھ سخت لیکن ضروری فیصلے کیے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کی بحالی کے فوری بعد ہی وزیرِ خزانہ کو تبدیل کردیا گیا اور معاشی زار کے طور پر اسحٰق ڈار کی واپسی ہوئی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں تھی کہ انہیں نواز شریف کی ہدایت پر کابینہ کا یہ اہم قلمدان سونپا گیا۔ اسحٰق ڈار کی واپسی سے شہباز شریف کے اختیارات کا معاملہ ایک بار پھر زیرِ بحث آیا۔ متوقع طور پر نئے وزیرِ خزانہ نے اپنے سابق ہم منصب کے کئی معاشی اور مالی فیصلوں کو تبدیل کردیا ہے۔

اسحٰق ڈار نے روپے کی قدر میں اضافہ اور مہنگائی کم کرنے کا وعدہ کیا لیکن ان کی جادو کی چھڑی نے کچھ خاص جادو نہیں دکھایا۔ اس کے بجائے ایک بار پھر ملک پر ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ان معاشی حالات میں حکمتِ عملی میں کسی بھی طرح کی تبدیلی آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ چین اور سعودی عرب سے ملنے والی اربوں ڈالر کی مالی امداد سے متعلق غیر مصدقہ دعوؤں نے خود وزیرِ خزانہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔

اگر پاکستان آئی ایم ایف معاہدے سے پیچھے ہٹتا ہے تو دیگر مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی امداد کا راستہ بند ہوسکتا ہے۔ بہت سے بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو کم کردیا ہے۔ معاشی بحران کو کم کرنے کے حوالے سے حکومت سنجیدگی سے غور نہیں کررہی ہے جبکہ ہم پر مستقبل قریب میں قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے پابندیاں بھی عائد ہوں گی۔ بہرحال، ملک کا مستقبل روشن نظر نہیں آرہا۔

کسی نئی سرمایہ کاری کا بھی امکان نہیں جو ہماری ڈوبتی معیشت کو سہارا دے سکے۔ ترسیلاتِ زر میں کمی سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی اضافہ ہوگا۔ ایک اور پریشان کن عنصر گیس کی کمی ہے جو نہ صرف صنعتوں، خصوصاً درآمدات کے شعبے کو متاثر کررہی ہے بلکہ یہ عوام میں موجود تشویش کو بھی ہوا دے رہی ہے۔

ان تمام مسائل کے درمیان مشکل ہی ہے کہ حکومت مہنگائی پر توجہ دے۔ بینکنگ سسٹم میں سود کے خاتمے سے متعلق شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا حکومتی فیصلہ نیا پنڈورا باکس ضرور کھولے گا۔

لیکن اسحٰق ڈار اپنی پریس کانفرنسوں میں ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ دیتے ہیں۔ یہ وہ خمیازہ ہے جو بیرونِ ملک کی جانے والی پالیسی سازی سے ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔

اسحٰق ڈار کا اثر معیشت کو مزید تباہ کررہا ہے۔ اس کے باوجود یہ روش نظر نہیں آرہی کہ حکومت آنے والے مزید بحرانوں کو روکنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ 7 ماہ سے زائد اقتدار میں رہنے کے باوجود، مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کر پائی ہے۔ جو معاشی صورتحال اپریل سے پہلے تھی، اب حالات اس سے کئی گنا بدتر ہیں۔

ملک کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے وزیرِاعظم اپنا زیادہ تر وقت بیرونِ ملک گزارتے ہیں۔ مخلوط حکومت کا اقتدار صرف دارالحکومت تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ معاملات کو کنٹرول کرنا اس کے لیے بہت ہی مشکل ہے۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان کے حامیوں کی اسلام آباد تک مارچ کی دھمکی نے مخلوط حکومت کو جیسے سکتے میں ڈال دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت وفاق کے لیے پی ٹی آئی کے مارچ کو روکنا مشکل بنارہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اقتدار کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا مگر وہ اس مختصر عرصے میں ہی بہت حد تک اپنی سیاسی ساکھ کھوچکی ہے، خاص طور پر پنجاب میں جو کبھی اس کی طاقت کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ آنے والے ماہ میں حالات تبدیل ہوکر ان کے حق میں ہوجائیں گے۔

ملک کو ایک ایسی نمائندہ حکومت کی ضرورت ہے جس کے پاس نیا مینڈیٹ ہو تاکہ وہ پاکستان میں استحکام لاسکے۔ ہم جس دلدل میں دھنس رہے ہیں اس سے نہ تو پراکسی اور نہ ہی ہائبرڈ نظام ہمیں نکال سکتا ہے۔


یہ مضمون 16 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں