پروین رحمٰن قتل: سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں

اپ ڈیٹ 21 نومبر 2022
پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا — اسکرین شاٹ
پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا — اسکرین شاٹ

سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں مبینہ طور پر ملوث پانچوں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا اور عدم ثبوت کی بنا پر انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس کے کے آغا اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل سندھ کے ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان عبدالرحیم سواتی، احمد خان، امجد حسین خان، عمران سواتی اور ایاز سواتی کو سنائی گئی سزا کالعدم قرار دے دی۔

عدالت نے کہا کہ ملزمان میں سے کسی پر بھی دراصل قتل کرنے کا الزام عائد نہیں کیا گیا جبکہ ان پر قتل کی منصوبہ بندی، قتل اکسانے اور عملاً قتل کی حوصلہ افزائی کا الزام ہے۔

ججوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پروین رحمٰن کا جو انٹرویو 2011 میں کیا گیا تھا اسے ان کے قتل کے بعد نشر کیا گیا لہٰذا وہ عدالت میں قابل قبول ثبوت نہیں لہٰذا اسے خارج کیا جائے۔

عدالت نے حکم دیا کہ اگر ملزمان دوسرے کیسز میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے دسمبر 2021 میں ملزمان کو دو، دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

خیال رہے کہ پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ دفتر سے اپنے گھر کی جانب جارہی تھیں۔

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا تاہم وہ اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکی تھیں۔

بعدِ ازاں مارچ 2015 میں کراچی اور مانسہرہ پولیس نے مانسہرہ کے علاقے کشمیر بازار میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پروین رحمٰن کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ملزم پپو کشمیری کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

یاد رہے کہ 7 مئی 2017 کو کراچی پولیس نے منگھوپیر تھانے کی حدود سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے مبینہ قاتل اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

گزشتہ سال مارچ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر ضمنی چارج شیٹ میں ملزمان نے انکشاف کیا گیا تھا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن نے قتل سے 15 ماہ قبل انٹرویو کے دوران اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر کی ’زمین پر قبضہ کرنے والوں اور بھتہ خوروں‘ کی نشاندہی کی تھی۔

دوران سماعت ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کی زیر نگرانی جے آئی ٹی کے ڈائریکٹر ڈی آئی جی پولیس بابر بخت قریشی نے ضمنی چارج شیٹ دائر کی تھی، جے آئی ٹی کے مطابق فری لانس صحافی فہد دیش مکھ نے پروین رحمٰن سے انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے ملزم رحیم سواتی کے ساتھ تنازع کا ذکر کیا تھا جو اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر کی اراضی پر کراٹے کا مرکز قائم کرنا چاہتا تھا۔

چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ انٹرویو میں پروین رحمٰن نے رحیم سواتی کو ’زمینوں پر قبضہ کرنے والا اور بھتہ خور‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے دفتر کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی نے صحافی فہد دیش مکھ کا بیان فوجداری طریقہ کار کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 161 کے تحت درج کیا۔

چارج شیٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ گواہوں کے شواہد اور بیانات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پروین رحمٰن کو رحیم سواتی اور اس کے ساتھیوں نے قتل کیا۔

واضح رہے کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ نامی این جی او کا قیام 1980 میں عمل میں آیا تھا، یہ این جی او اورنگی ٹاؤن میں غیر قانونی تعمیرات کے معاملات پر نظر رکھتی ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے گواہوں کے بیانات اور دلائل مکمل ہونے کے بعد 15 اکتوبر 2021 کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور گزشتہ سال 17دسمبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قتل میں ملوث 4 ملزمان کو 2،2 مرتبہ عمر قید کی سزا سنا دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں