فیفا ورلڈکپ: ایرانی ٹیم کی مظاہروں کی حمایت، قومی ترانہ پڑھنے سے انکار

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2022
یونیورسٹی طالب نے کہا کہ میرا خیال ہے قومی ٹیم کو نہیں کھیلنا چاہیے— فوٹو: رائٹرز
یونیورسٹی طالب نے کہا کہ میرا خیال ہے قومی ٹیم کو نہیں کھیلنا چاہیے— فوٹو: رائٹرز

ایران کی فٹ بال ٹیم نے فیفا ورلڈکپ میں انگلینڈ کے خلاف میچ سے قبل قومی ترانہ پڑھنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسلامی ملک میں لوگوں نے ٹیم پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ملک میں جاری احتجاج کے خلاف پُرتشدد ریاستی کریک ڈاؤن کی حمایت کر رہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق قطر میں خلیفہ انٹرینشل اسٹیڈیم انگلینڈ کے خلاف میچ سے قبل قومی ترانہ چلایا گیا تو کھلاڑی خاموش رہے، جہاں پر ہزاروں ایرانی مداح اسٹینڈز میں چیختے رہے۔

کچھ لوگوں نے طنز کیا جبکہ دیگر نے انگوٹھا نیچا کرکے دکھایا۔

ایرانی فٹ بال اسکواڈ طویل عرصے سے ایران میں قومی فخر کا ایک بہت بڑا ذریعہ رہا ہے لیکن ورلڈ کپ میں سیاست میں پھنس گئے۔

انگلینڈ نے پیر کو کھیلے جانے والے گروپ بی کے میچ میں ایران کو 2-6 سے شکست دی لیکن ناکامی بھی ایرانی تماشائیوں کو خاموش نہیں کرسکی جو ڈھول بجاتے رہے۔

میچ سے قبل بھی کسی ایرانی کھلاڑی نے مظاہروں کی حمایت نہیں کی، جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، یہ 1979 میں آنے والے اسلامی انقلاب سے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

ورلڈکپ دیکھنے کے لیے آنے والے ایرانی مداح نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم سب اس لیے افسردہ ہیں کہ ایران میں ہمارے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے لیکن ہمیں اپنی ٹیم پر فخر ہے کیونکہ انہوں نے قومی ترانہ نہیں پڑھا۔

2 ماہ قبل غیر موزوں لباس کی خلاف ورزی پر 22 سالہ مہسا امینی کی گرفتاری اور زیر حراست موت کے بعد سے مظاہرین حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ایران کی درجنوں اہم شخصیات، ایتھلیٹس اور فنکاروں نے مظاہرین سے یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن فٹ بال ٹیم نے پیر کو میچ سے قبل ان کی حمایت نہیں کی تھی جب ٹیم کے تمام اراکین خاموش رہے تھے جب قومی ترانے کو چلایا گیا تھا۔

ایران کے سرکاری ٹی وی نے قطر میں ہونے والے میچ میں قومی ترانے کے لیے قطار بنانے کے مناظر نہیں دکھائے تھے۔

ایرانی اسکواڈ حکومت مخالف بدامنی کے زیر سایہ ہونے سے بچ نہیں سکا جس نے ایران کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔

اس سے پہلے ایران کی فٹ بال ٹیم ملک بھر میں قومی فخر کا ذریعہ رہی ہے، لیکن اب وسیع مظاہروں کے ساتھ کافی لوگوں نے ورلڈکپ سے خود کو علحیدہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔

فٹ بال ٹیم نے دوحہ آنے سے قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی تھی، تصویروں میں ایرانی کھلاڑی ان کے سامنے جھک رہے ہیں جبکہ سڑکوں پر مظاہرہ جاری تھا۔

یکجہتی کا مظاہرہ کریں

یونیورسٹی کے 24 سالہ طالب علم ایلمرا نے بتایا کہ میرے احساسات ملے جلے ہیں، مجھے فٹ بال پسند ہے لیکن جو بچے اور خواتین سمیت دیگر افراد ایران میں مارے گئے ہیں، میرا خیال ہے قومی ٹیم کو نہیں کھیلنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایران کی نہیں اسلامی جمہوریہ کی ٹیم ہے۔

یہ لوگ ورلڈکپ میں کھیلنے کو مسترد کرسکتے تھے یا انہیں اگر زبردستی بھیجا جاتا تو یہ کھلینے سے منع کرسکتے تھے تاکہ ان ماؤں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے جن کے بچے (مظاہروں) کے درمیان قتل کیے گئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں