اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


آج ہم قارئین کو ورلڈ کپ کی کوریج کے دوران ڈیڈلائن کے دباؤ سے متعلق بتائیں گے۔ مجھے بہت لوگ کہتے ہیں کہ یار آپ کو تو میچ میں اتنی اچھی سیٹ ملتی ہے اور تاریخی میچوں میں موجود ہونے کا موقع ملتا ہے، آپ کو تو یقیناً تو بہت مزا آتا ہوگا۔

بالکل ایسا ہے، ان باتوں سے انکار نہیں اور مزہ بھی بہت آتا ہے، مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ٹورنامنٹ ختم ہونے کے چند سال بعد آپ کو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ آپ میچ نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ صرف لکھ رہے تھے، اور آپ لکھ اس لیے رہے ہوتے ہیں کیونکہ آپ کا کام صرف میچ دیکھنا نہیں ہوتا بلکہ آپ کو اپنے ادارے کے لیے رپورٹ بھی بناکر بھیجنی ہوتی ہے اور یہیں پر آتا ہے ڈیڈلائن کا دباؤ۔

ڈیڈلائن کے دباؤ میں ہوتا یہ ہے کبھی کبھی میرے پاس رپورٹ بھیجنے کے لیے میچ ختم ہونے کے بعد صرف 3 یا 4 منٹ کا وقت ہوتا ہے۔ اس مختصر وقت میں کام کرنے میں مزا بھی آتا ہے لیکن یہ ایک چیلنج بھی ہوتا ہے۔

کل ڈیڈلائن کا دباؤ اتنا نہیں تھا جتنا دباؤ ایک میچ سے دوسرے میچ میں پہنچنے کا تھا۔

میں نے جب پہلا میچ یوروگوئے بمقابلہ جنوبی کوریا کور کیا تو اس کے بعد میں نے سوچا کہ ابھی دوسرا میچ شروع ہونے میں تھوڑا وقت ہے تو کیوں نہ ’مکسڈ زون‘ میں چلا جاؤں۔ مکسڈ زون وہ جگہ ہوتی ہے جہاں کھلاڑی میچ ختم ہونے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہیں لیکن کھلاڑیوں کا بات کرنا نہ کرنا آپ کی قسمت پر منحصر ہوتا ہے کیونکہ اگر ان کا موڈ ہوتا ہے تو وہ بات کرنے کے لیے رک جائیں گے ورنہ نہیں۔ تو ایک طرح سے یہ ایک جوا ہے۔ کبھی کبھار آپ کو وہاں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بھی کھڑے رہنا پڑتا ہے۔

یہاں کھلاڑیوں کی اپنی انا بھی ہوتی ہے اوپر سے ہم ٹھہرے پاکستانی صحافی، ہمارے لیے تو وہ شاید ہی کبھی رک جائیں۔ آپ ان سے انگریزی میں سوال کررہے ہوتے ہیں لیکن وہ بڑے ستارے ہیں ان کے پاس بھی وقت کم ہوتا ہے تو اس جوئے کے لیے آپ کے پاس ٹائم نہیں ہوتا۔

اب جب میں یوروگوئے اور جنوبی کوریا کے میچ کے بعد مکسڈ زون میں گیا تو مجھ پر دوسرے میچ میں پہنچنے کے لیے دباؤ تھا۔ میں چاہ رہا تھا کہ یہ جلدی ختم ہو تاکہ میں شٹل لے کر دوسرے میچ میں پہنچ سکوں۔

میں نے مکسڈ زون میں انتظار کیا۔ یوروگوئے کے 2 کھلاڑی لوئس سواریز اور ایڈنسن کاوانی مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہیں۔ چونکہ دونوں برطانوی لیگ میں کھیل چکے ہیں اسی لیے مجھے اندازہ تھا کہ یہ انگریزی میں گفتگو کر ہی لیں گے۔

ہم انتظار کرتے رہے، کھڑے رہے کھڑے رہے اور کھڑے ہی رہے۔ بے حد انتظار کے بعد جنوبی کوریا کی ٹیم تو چلی گئی، مگر ان کے کپتان سون ہیونگ من نے رُک کر انگریزی میں سوالات لیے۔ مکسڈ زون میں صحافیوں کا رش ہوتا ہے اگر کوئی کھلاڑی رُک جائے گا تو تمام صحافی اپنے مائیک لے کر اس کھلاڑی کے پاس پہنچ جائیں گے کہ کسی طرح کوئی بیان ریکارڈ ہوجائے اور ہماری خبر میں کوئی ردِعمل شامل ہوجائے۔

سون ہیونگ من کا سب سے پہلے برطانوی صحافی نے انٹرویو کیا اور پھر دیگر صحافیوں نے بھی ان سے سوالات کیے۔ جب وہ چلے گئے تو مجھے امید ہوئی کہ کیا پتا اب سواریز یا کاوانی آجائیں اور کافی انتظار کے بعد سواریز آئے بھی لیکن انہوں نے سوالات لینے سے انکار کیا اور سیدھے باہر چلے گئے۔

صحافیوں نے ان کے ساتھ سیلفیز بھی بنوائی حالانکہ مکسڈ زون میں سیلفی لینے کی ممانعت ہے لیکن فیفا تھوڑی چھوٹ دے دیتا ہے۔ میں شاید سیلفی اس لیے نہیں لیتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مواقع دیے کہ میں ان کھلاڑیوں کو قریب سے بہت بار دیکھ چکا ہوں۔ اگرچہ میں اپنے پہلے ورلڈ کپ میں سیلفیز لینا چاہتا تھا لیکن قانون کی پاسداری کرتے ہوئے میں نے ایسا نہیں کیا۔ البتہ میڈیا سینٹر میں پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ سیلفیز میں نے ضرور لی ہیں۔

خیر سواریز چلے گئے، اب کاوانی کا انتظار تھا۔ روس ورلڈ کپ میں کاوانی نے پرتگال کے خلاف 2 گول مار کے پرتگال کو عالمی کپ سے باہر کیا تھا۔ وہ میچ میں نے دیکھا تھا اس لیے مجھے کاوانی پسند ہیں۔ تو ایڈنسن کاوانی آئے، وہ تیز تیز جارہے تھے لیکن اچانک وہ رک گئے۔ مجھے لگا یہ میرا موقع ہے اور میں نے ان سے کہا کہ میں 2 سوال کرنا چاہتا ہوں مگر کاوانی نے کہا کہ وہ آج صرف ہسپانوی زبان میں بات کریں گے۔ لہٰذا ہسپانوی صحافیوں نے ان سے بات کی اور پھر کاوانی وہاں سے چلے گئے۔

اس پورے انتظار کا فائدہ اس لیے نہیں ہوا کہ جو ہم چاہتے تھے وہ نہیں ہوسکا اس طویل انتظار کے بعد ہمیں دوسرے میچ کی کوریج کے لیے ایک بار پھر دوڑ لگانی پڑی اور پھر اس میچ کی رپورٹ بنانا بھی نیا چیلنج تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں