چین: سیاسی آزادی اور لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے متعدد مظاہرین گرفتار

28 نومبر 2022
چین میں سیاسی آزادیوں اور کووڈ لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لیے لوگ سڑکوں پر ہیں —فوٹو: اے ایف پی
چین میں سیاسی آزادیوں اور کووڈ لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لیے لوگ سڑکوں پر ہیں —فوٹو: اے ایف پی

چین میں سیاسی آزادیوں اور کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق چین کے اہم شہروں میں ہزاروں افراد نے جامعات کے سامنےلاک ڈاؤن ختم کرنے اور سیاسی آزادی دینے کے لیے مظاہرے کیے، جہاں 1989 میں جمہوریت پسندوں کی طرف سے نکالی گئی ریلیوں کو کچلنے کے بعد پہلی بار مظاہرے شروع ہوئے ہیں۔

شمال مغربی چین کے علاقے ارومچی میں گزشتہ ہفتے ایک مہلک آگ سے عوامی ردعمل سامنے آیا جہاں بہت سے لوگوں نے کورونا وائرس سے متعلق لاک ڈاؤن کو ریسکیو عمل کی کوششوں میں رکاوٹ بننے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

حکومت نے مہلک آگ کا ذمہ دار لاک ڈاؤن کو ٹھہرانے کا الزام کچھ خاص مقاصد والے افراد پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے حقیقت واضح کرکے افواہوں کو مسترد کردیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین مظاہرین سیاسی آزادیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں سے کچھ تو چینی صدر کے استعفے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں جو کو حال ہی میں تیسری بار ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔

گزشتہ روز دارالحکومت بیجنگ اور شنگھائی کے مرکز میں لوگوں کے بڑے ہجوم جمع ہوئے جہاں پولیس کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق اسی علاقے میں سیکڑوں افراد نے کاغذ کی خالی شیٹس اور پھولوں کے ساتھ ’خاموش‘ ریلی بھی نکالی۔

ادھر برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے کہا ہے کہ شنگھائی میں مظاہروں کی کوریج کرنے والے ان کے صحافی کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے مگر چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ رپورٹر نے خود کی شناخت نہیں کی۔

برطانیہ کے ایک وزیر نے آج چینی پولیس کے ایسے عمل کو ناقابل برداشت اور تشویشناک قرار دیا۔

رپورٹ کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے اور مزید ہجوم کو جمع ہونے سے روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی جہاں پولیس نے تین مظاہرین کو گرفتار کرلیا جبکہ راہ گیر عام شہریوں کو تصاویر اور ویڈیو بنانے سے سختی سے روک دیا۔

رپورٹ کے مطابق شنگھائی پولیس نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کتنے مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔

دوسری جانب ریاست نے مظاہروں اور ریلیوں کی کوئی بھی خبر سوشل میڈیا پر جانے سے روکنے کے لیے چین کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی بندش لگادی ہے مگر ٹوئٹر نما ایک سوشل میڈیا ایپلی کیشن پر اس طرح کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

چینی حکومت کی طرف سے معلومات تک رسائی پر سخت کنٹرول اور زیرو کووڈ پالیسی سے منسلک سفری پابندیاں پورے ملک میں مظاہرین کی تعداد میں اضافے کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس طرح کی بڑی ریلیاں عام نہیں ہیں جہاں سیکیورٹی فورسز مرکزی حکومت کے خلاف کسی بھی سرگرمی یا مخالفت کو سختی سے روکنے کے لیے پیش پیش ہیں۔

چین میں سب سے پہلے کورونا وائرس کا شکار ہونے والے شہر ووہان میں بھی بڑے پیمانے پر لوگ مظاہروں کے لیے نکلے ہیں، جبکہ ہانگ کانگ سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ پابندیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔

سرکاری اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ نے آج ایک تبصرہ شائع کیا جس میں کووڈ کے خلاف جنگ کو روکنے اور مسائل پیدا کرنے کے خلاف انتباہ دیا گیا اور سخت گیر پالیسی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے سے گریز کرنے کا کہا گیا۔

سنگاپور نیشنل یونیورسٹی میں چینی سیاست کے ماہر الفریڈ وو ملوان نے کہا کہ لوگ اب ایک فیصلہ کن مقام پر پہنچ چکے ہیں کیونکہ زیرو کووڈ پالیسی ختم کرنے کے حوالے سے کوئی واضح سمت نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں