ریکوڈک ریفرنس سماعت: ’پاکستان کو 90 کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہے‘

28 نومبر 2022
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر سماعت کی— فائل/فوٹو: رائٹرز
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر سماعت کی— فائل/فوٹو: رائٹرز

سپریم کورٹ میں ریکوڈک منصوبے پر دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران سرکاری کمپنیوں کے وکیل نے کہا ہے کہ منصوبے میں پاکستان کو 4.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے علاوہ 90 کروڑ ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔

کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے ریکوڈک منصوبے کے ماحول دوست ہونے کے عدالتی سوالات پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں تمام تر ماحولیاتی تحفظات کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے ریکوڈک منصوبے کے لیے استعمال ہونے والے پانی کا سوال کیا تھا، کمپنی جو پانی استعمال کرے گی وہ جان داروں کے استعمال کے قابل نہیں، پائپ لائن سے جانے والا پانی گوادر بندرگاہ پر صاف ہونے کے بعد سمندر میں جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سمندر کا پانی ریکوڈک تک لا کر استعمال نہیں ہو سکتا، جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک سے گوادر 680 کلومیٹر ہے جہاں سے روزانہ پانی لانا ناممکن ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پراجیکٹ میں مسلسل پانی کےاستعمال سے بلوچستان میں خشک سالی ہو سکتی ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ تحقیق کے مطابق ریکوڈک میں پانی کا ذخیرہ منصوبے کی مجموعی زندگی سے زیادہ ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ غیر ملکی کمپنی صوبہ بلوچستان کے پانی کا ری سائیکلنگ پلانٹ لگائے اور ریکوڈک کان میں کام کرنے والے مزدوروں کے تحفظ اور مراعات کیا طے ہوئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک میں کام کرنے والے مزدوروں کی مراعات مقامی مزدوروں سے بہتر ہونی چاہئیں، جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ لوکل لیبر قوانین ہی ریکوڈک کان کے ملازمین پر لاگو ہوں گے تاہم اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اقدار کی پابندی کی جائے گی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بیرک گولڈ کے پاکستان اور دیگر ملکوں میں جاری منصوبوں میں مزدوروں کی تنخواہوں کا موازنہ بتائیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دنیا بھر میں کان کنی کرنے والے مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں، مزدوروں کے تحفظ کا فریم ورک بتائیں۔

اس موقع پر ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کار حکومتی ملکیتی اداروں کے وکیل جہانزیب اعوان نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ ریکوڈک معاہدے میں حکومت پاکستان 50 فیصد سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرمایہ کاری براہِ راست نہیں ہے، پاکستان تین حکومتی ملکیتی اداروں کے ذریعے ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، جن میں او جی ڈی سی ایل، پاکستان پیٹرولیم کمپنی لمیٹد اور گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ کمپنی بھی سرمایہ کار حکومتی مالیاتی اداروں میں شامل ہے۔

وکیل نے کہا کہ تینوں حکومتی مالیاتی اداروں کی جانب سے منصوبے میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی، پاکستان کو 4.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے علاوہ 90 کروڑ ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جرمانے کی مد میں تینوں حکومتی مالیاتی اداروں نے 56 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کر دیے ہیں۔

جہانزیب اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ریکوڈک منصوبے سے ملنے والا 64 فیصد فائدہ پبلک سیکٹر کو ہو گا، ریکوڈک منصوبے میں تمام ٹرانزیکشنز کا آڈٹ اسٹیک ہولڈرز کو میسر ہو گا۔

اس کے ساتھ ہی ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کار حکومتی ملکیتی اداروں کے وکیل جہانزیب اعوان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے صدارتی ریفرنس کی مزید سماعت 29 نومبر تک ملتوی کر دی۔

ریفرنس کا پس منظر

یاد رہے کہ کینیڈا کی مائننگ فرم بیرک گولڈ کارپوریشن کو توقع ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، بلوچستان میں ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ منصوبے میں عالمی ثالثی کے تحت 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راستہ بناتے ہوئے عدالت سے باہر کیے گئے اس کے 6 ارب ڈالر کے تصفیے کی منظوری دے گی۔

21 مارچ 2022 کو پاکستان نے غیر ملکی فرم کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کیا تھا، معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کے جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

19 جولائی 2022 کو وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کارپوریشن نے 14 اگست سے ریکوڈک گولڈ پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم 18 اکتوبر کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سفارش پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔

اس سے قبل 5 اکتوبر کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک منصوبے پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں