پرویز الہٰی سے طے شدہ ملاقات کے بجائے عمران خان کی اسپیکر پنجاب اسمبلی سے ملاقات

عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے ملاقات نہیں کی— فائل فوٹو: ٹوئٹر
عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے ملاقات نہیں کی— فائل فوٹو: ٹوئٹر

پنجاب میں جہاں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں وہیں دوسری جانب منگل کو وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی سے طے شدہ ملاقات کے باوجود چیئرمین تحریک انصاف کی اسیپکر پنجاب اسمبلی سے ملاقات نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اسمبلی کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حکمران جماعت کے اقدام کو روکا جاسکے، اسی روز وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما آصف علی زرداری نے بھی 8 روز میں دوسری بار ملاقات کی اور صوبے میں ممکنہ سیاسی بحران کو روکنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے درمیان کئی دن سے طے اہم ملاقات منگل کو نہ ہو سکی حالانکہ وزیر اعلیٰ، راولپنڈی میں فوج کی کمان کی تبدیلی کی تقریب میں مختصر طور پر شرکت کے بعد دوپہر کو شہر واپس آگئے تھے۔

وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے بجائے عمران خان پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان سے ملنے گئے جس نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ وہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے عمران خان کے لیے یہ پیغام لے کر گئے تھے کہ تحمل سے کام لیں اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔

راولپنڈی میں وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی نے تقریب میں شرکت کی اور جنرل سید عاصم منیر کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ پرویز الہٰی نے پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنما پرویز خٹک سے ملاقات کی اور اسمبلی کے طریقہ کار کے قواعد پر غور کیا اور مقننہ کے حوالے سے تمام تکنیکی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا۔

پیر کو پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کو حتمی شکل دینے کے لیے پرویز الہٰی، عمران خان سے ملاقات کریں گے تاہم وزیراعلیٰ کے صاحبزادے اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہٰی نے منگل کو ملاقات طے ہونے کی تردید کی۔

مونس نے ڈان کو بتایا کہ اب ملاقات جمعرات کو طے ہوئی ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک اندرونی ذریعے نے دعویٰ کیا کہ اگر ملاقات بدھ کو بھی نہیں ہوتی ہے تو اس سے صرف افواہوں کو تقویت ملے گی کہ اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پر اتحادی جماعتوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کر سکتی اور گورنر راج کے نفاذ کے امکانات صفر ہیں، اگر تحریک پیش کی بھی گئی تو اپوزیشن کو اسے منظور کرانے کے لیے 186 ارکان کی ضرورت ہوگی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب کوئی اسپیکر اسمبلی اجلاس طلب کرتا ہے تو گورنر مداخلت نہیں کر سکتا۔

علاوہ ازیں اسپیکر نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی بیک ڈور رابطے نہیں ہیں۔

عمران خان اور پرویز الہٰی کے درمیان منگل کی طے شدہ ملاقات پارٹی کے اندر کافی اہمیت رکھتی ہے، دونوں رہنما کم از کم دوپہر تک شہر میں ہی تھے۔ سیاسی مبصرین بھی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کی زمان پارک میں آمد کو ’غیر معمولی‘ سمجھتے ہیں۔

دریں اثنا سینئر صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کے اہم رہنما میاں اسلم اقبال نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی قیاس آرائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ پرویز الہٰی کی عمران خان سے ملاقات اب جمعرات کو ہوگی، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ملاقات منگل کو کیوں نہیں ہو سکی۔

دوسری جانب ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا نے عندیہ دیا کہ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باجوہ کے معاملے پر ان کی پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان سب کچھ ’پرفیکٹ‘ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم دو مختلف فریق ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر چیز پر متفق ہوں، فوج سے بات چیت کے حوالے سے مسلم لیگ (ق) کی اپنی ترجیحات ہیں، ہم ادارے کا احترام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، کسی کو بھی اس ترجیح کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں