استعفے دینا چاہتے ہو تو دے دو، ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، بلاول بھٹو زرداری

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2022
بلاول بھٹو کا کراچی میں پی پی پی کے یوم تاسیس کے سلسلے میں ہونے والے جلسے سے خطاب — فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو کا کراچی میں پی پی پی کے یوم تاسیس کے سلسلے میں ہونے والے جلسے سے خطاب — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر استعفے دینے ہیں تو دے دیں ہم ڈٹ کر مقابلہ کرے گے۔

کراچی میں پیپلز پارٹی کے 55 ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ جو دھمکیاں دے رہا ہے کہ میں استعفے دوں گا، پہلے تو آپ ہمارے استعفے لینے آئے تھے اور خود اپنے استعفے دینے شروع کردیے، مگر یہ بھی جھوٹ اور دھوکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لکھ لو یہ خیبرپختونخوا اور پنجاب سے استعفیٰ نہیں دیں گے کیونکہ قومی اسمبلی سے اس نے استعفے دیے تھے، جیسے ہی ضمنی انتخابات شروع ہوئے تو عدالت پہنچ گئے کہ ہمارے استعفے منظور نہ کریں ہم سیاست کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ لانگ مارچ پر نکلے تو وہ ناکام ہونا تھا اور ناکام ہوگیا، جیسے یہ عدم اعتماد کے وقت اسمبلی سے بھاگا تھا ویسے یہ پنڈی سے بھاگ نکلا اور یہ شوشہ چھوڑا کہ ہم استعفیٰ دے رہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر استعفیٰ دینا چاہتے ہو تو دے دو، پی پی پی آپ کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے، سلیکٹڈ ڈراما باز سے نہیں ڈرتے ہیں اور ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیاری میں وہ خود بھاگے، جب وہ فیض یاب تھے تو لیاری میں ڈاکا مارا گیا اور مینڈیٹ چوری کیا گیا اور جب امتحان کا وقت آیا تو ڈر کر بھاگ گئے اور اسلام آباد سے حکم امتناع کا بندوبست کرتے ہیں اور کہتے ہیں استعفیٰ منظور نہ کرو یہ تو ہم سیاسی شوشہ کر رہے تھے۔

’کراچی میں ایک جیالا ناظم منتخب ہوگا‘

خطاب کا آغاز کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اس سال ضلعی سطح پر یا ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں پی پی پی کا یوم تاسیس منایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ نشترپارک میں کراچی کے میڈیا کو بتانا چاہتا ہوں نشترپارک کراچی کے شہریوں سے بھرا ہوا ہے اور اسی شہر میں پیدا ہوا ایک جیالا شہر کا ناظم منتخب ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی وفاق کی جماعت ہے تو کراچی کی بھی جماعت ہے اور ہمارا بھی حق ہے کہ ہم کراچی کا میئر منتخب کریں اور کراچی کے عوام کے مسائل حل کریں۔

انہوں نے کہا کہ میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے جیالوں سے مخاطب ہوں، جنہوں نے عمران خان نیازی کے ناک کے نیچے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پی پی پی نفرت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی، پی پی پی امید اور یک جہتی کی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور انتشار کی سیاست کو رد کرتی ہے، پی پی پی اس ملک کو جوڑتی ہے۔

’بھٹو نے جنگ ہارے ہوئے ملک کو پیروں پر کھڑا کیا‘

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 55 برس قبل جب پی پی پی کا پرچم اٹھایا اور ایک جنگ ہارنے کے بعد اس ملک کی قیادت سنبھالی تھی، ایک ہارے ہوئے ملک کو امید دلائی تھی، ہاری ہوئی قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فوجی ناکامی کے بعد 90 ہزار جنگی قیدی ہمارے دشمن کے کیمپ میں تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو اپنی سیاست، دانش مندی، کامیاب خارجہ پالیسی سے وہ جنگی قیدی پاکستان واپس لے آئے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ ہارنے کے بعد 5 ہزار مربع کلومیٹر زمین ہمارے دشمنوں کے پاس تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے وہ پاکستان کے قبضے میں واپس لی اور آج اسی زمین سے کالا سونا تھر کا کوئلہ نکل رہا ہے اور فیصل آباد کی جو صنعتیں ہیں وہ اسی سرزمین کے کوئلے سے بجلی پیدا کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ملک کا دفاع یقینی بنایا، یہ سیاسی کارکنوں کی کامیابی ہے کہ آج پاکستان ایٹمی طاقت ہے، مسلم دنیا میں پاکستان ایک ایٹمی پاور ہے تو وہ بھٹو اور پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو انتشار کی نہیں بلکہ یکجہتی کی سیاست پر یقین رکھتے تھے، اس ملک کو آپس میں نہیں لڑواتے تھے بلکہ اس ملک کو جوڑتے تھے، آج بھی پاکستان کے مسائل حل کرنے ہیں، جمہوریت کو طاقتور بنایا اور ملک کی معاشی ساکھ بہتر کرنی ہے اور خارجہ امور پر کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے تو پی پی پی کی امید اور یکجہتی کی سیاست یہ حاصل کرسکتی ہے۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ہم نے جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے یحییٰ خان، ضیاالحق اور آمر مشرف کی آمریت ختم کیا اور سلیکٹڈ راج کو خداحافظ کہہ دیا۔

’ہم نے پھانسی پر چڑھتے ہوئے نفرت نہ کرنے والی قیادت دیکھی ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسی قیادت دیکھی ہے جو شہادت قبول کرے، جو پھانسی کے پھندے پر چڑھے مگر اس وقت بھی نفرت اور انتشار کی سیاست نہ کرے جبکہ آج کے نوجوانوں کو غلط بتایا جاتا ہے کہ جو لیڈرز ہوتے ہیں وہ یوٹرنز لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہی نظریہ بینظیر بھٹو آگے لے کر چلی، والد اور دونوں بھائیوں کو شہید کیا گیا، والدہ پر لاٹھی چارج اور جلاوطن کیا گیا اور خود جلاوطنی برداشت کی، اپنے شوہر کی طویل قید دیکھی لیکن پاکستان کے سیاسی کربلا میں اس سیاسی جدوجہد میں بینظیر بھٹو نے ایک دن کے لیے بھی نفرت اور انتشار کی سیاست نہیں کی اور زندگی بھر کبھی پاکستان کے خلاف کوئی نعرہ نہیں اٹھا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آج کل لوگ انگلی کٹا کر شہادت کی منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس ملک میں سیاست اگر کرنی ہے تو شہید بینظیر بھٹو سے سیکھو، جو نفرت نہیں بلکہ محبت اور امید کی سیاست پر یقین رکھتی تھی، وہ غیرت مندوں اور بہادروں کی سیاست پر یقین رکھتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو واپس آئی تھی تو کراچی میں کارساز حملہ جو آج تک پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہے، اس واقعے پر بینظیر بھٹو پیچھے نہیں ہٹی یا انتشار یا نفرت کی سیاست شروع نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو چاہتی تو اس دھماکے کے بعد خود کو گھر میں بند کرکے کارکنوں سے ویڈیو خطاب کرسکتی تھی مگر وہ بہادر اور دلیر تھی ملک کے کونے کونے میں پہنچی اور راولپنڈی میں کھڑی ہو کر وقت کے آمر کو للکارا۔

’بینظیر کے خلاف اصلی سازش کی گئی تھی‘

انہوں نے کہا کہ آج کل جعلی سازش کی بات کی جاتی ہے لیکن بینظیر بھٹو کے خلاف اصلی سازش ہوتی تھی اور بار بار حکومت ختم کردی جاتی تھی مگر ایک دن کے لیے بھی نفرت یا انتشار کی سیاست نہیں کی یہاں تک ملک میں ایک بار پھر آمریت مسلط کی گئی تو وہ بھول چکی تھی کہ کس نے میرے شوہر کو جیل بھیج دیا اور کس نے میری پارٹی کے اوپر کیسز بنائے اور کس کے دور میں پارٹی کارکنوں اور شوہر پر تشدد کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بینظیر بھٹو نفرت اور انتشار کی سیاست کرتی تو شاید یہ ممکن نہ ہوتا لیکن ملک کی سیاست اور جمہوریت کی بحالی کے لیے انہی سیاست دانوں کے پاس پہنچی جنہوں نے شوہر کو جیل میں ڈالا اور جمہوریت بحال کرنے کے لیے تحریک شروع کی۔

انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے ہمیں ہر کسی سے لڑنے کی نہیں بلکہ جوڑنے کی سیاست سکھائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کو ہماری آنکھوں کے سامنے راولپنڈی میں شہید کیا گیا اور ملک کے چاروں کونوں میں آگ ہی آگ تھی اور ہم چاہتے تو تب نفرت کی سیاست کرتے اور کوئی اعتراض نہیں کرتا اگر ہم نفرت اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کرتے، یہ پی پی پی، جیالوں، صدر زرداری اور میرے لیے امتحان کا موقع تھا اور موقع آیا تو صدر زرداری نے کہا پاکستان کھپے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر میں چاہتا تو کہہ سکتا تھا مجھے انتقام چاہیے میرے نانا، میرے ماموں کے قتل کا حساب دو اور ایوان صدر پر ٹوٹ پڑو اور مجھے آمر مشرف کا سر چاہیے اور اگر 27 دسمبر 2007 کو میری تقریر یہ ہوتی تو پاکستان کے ساتھ کیا ہوتا، مگر بینظیر بھٹو نے ہمیں نفرت اور انتشار کی سیاست نہیں سکھائی، یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی ذاتی انتقام کی بات نہیں کی۔

’سلیکٹڈ کو جمہوری طریقے سے گھر بھیجنے کا وعدہ کیا تھا‘

سابق وزیراعظم عمران خان کا نام لیے بغیر وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے اپنے کارکنوں اور عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اس کٹھ پتلی اور سلیکٹڈ جس کو ہم پر مسلط کیا گیا جو آئینی حقوق سلب کرنا چاہتا ہے، صوبائی خود مختاری ختم کرنا، بے روزگاری، مہنگائی اور ٹیکسز کا طوفان لا رہا ہے، گھڑی چوری بھی مگر ہم اس کا مقابلہ سیاسی میدان اور ضمنی انتخاب میں کریں گے اور لانگ مارچ ہوگا مگر اس کا نتیجہ جمہوری ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے وعدہ کیا تھا ملک کی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد، آئینی جمہوری ہتھیار اپنا کر ایک وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے، جس کے لیے نہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور نہ کہیں اور جائیں گے کیونکہ ہم ووٹ کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔

’ہماری سیاسی کہانی ابھی شروع ہوئی، عمران خان کو خدا حافظ کہہ دیا‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہماری سیاست کی کہانی ابھی شروع ہو رہی ہے اور آتے ہوئے ہم نے عمران خان کو خداحافظ کہہ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو گنوا سکتے ہیں، ہم اپنی قربانی اور کامیابی بھی گنوا سکتے ہیں اور ملک کے عوام کو معلوم ہے اگر حق اور معاشی انصاف ملنا ہے تو پی پی پی دلاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے سیاسی مخالف سے کہتے ہیں کہ نفرت اور انتشار کی سیاست بند کرو، اس قوم اور جمہوریت کے خلاف سازش بند کرو تو پھر شاید یہ قوم آپ کو معاف کرے ورنہ یہ قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔

’آج ہمارے ادارے اپنی غلطی مان چکے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ ہر غیرجمہوری سازش میں یہی سلیکٹڈ لوگ ساتھ تھے، عوام کے حقوق سلب کرنے اور آمرانہ نظام نافذ کرنے کے لیے یہ پولنگ ایجنٹ بنے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ آج جب ہمارے سارے ادارے اپنی غلطیاں مان چکے ہیں اور آج کے بعد سیاست نہیں کریں گے، آج کے بعد متنازع نہیں بلکہ آئینی کام کریں گے، آج کے بعد ہم سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے تو اسی وقت سارے سلیکٹڈ سیاست دان اور کٹھ پتلیاں پریشان ہوئے کہ اگر یہ لوگ غیرسیاسی اور نیوٹرل ہوکر آئینی کردار ادار کریں گے تو سلیکٹڈ سیاست دانوں کا کیا کردار ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی وقت انہوں نے نفرت، انتشار، سازش اور ملک توڑنے کی سازش شروع کرتے ہیں، اپنی گھڑی چوری چھپانے، گوگی صاحبہ کو بچانے کے لیے، علیمہ باجی کو بچانے کے لیے، فارن فنڈنگ کیس سے چھپنے کے لیے انتشار پھیلایا جارہا ہے اور نفرت کی سیاست کی جارہی ہے اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ان ساری سیاسی قوتوں کو ہم خبردار کرتے ہیں اور ان کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ماضی میں ہر جمہوریت دشمن سازش کو ناکام بنایا اور آج بھی اس کٹھ پتلی سازش کو ناکام بنائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں