خلوص نیت سے فیصلہ کریں تو 5 سال میں ملک سے سود کا خاتمہ ہو سکتا ہے، وزیر خزانہ

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2022
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ عام بینکوں کے مقابلے اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ دینا ہوگا— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ عام بینکوں کے مقابلے اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ دینا ہوگا— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے، اگر ہم خلوص نیت سے صرف اللہ کی رضا کے لیے فیصلہ کریں تو 5 سال میں ملک سے سود کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

کراچی میں سود کی حرمت کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف جب 2 سرکاری بینکوں نے درخواستیں دائر کیں تو مجھے بہت تشویش ہوئی اور میں نے عزم کیا کہ جب بھی پاکستان گیا اور موقع ملا تو میرا پہلا کام یہ درخواستیں واپس کرنا ہوگا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ملک کا مالیاتی نظام معاشی ترقی میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے ہی ملک کی کاروباری برادری کی ضروریات پوری کرنے کا عمل انجام پاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سود پر مبنی بینکاری نظام روایتی طور پر معیشت کی مختلف مالی ضروریات پورا کرتا رہا ہے اور یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کاروباری طبقے کے ساتھ ساتھ عوام کی جانب سے بینکاری خدمات کا استعمال جدید دور کی زندگی کی ضرورت بن چکا ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ دنیا کی کوشش ہے کہ دور دراز علاقوں کے لوگ بھی بینکنگ نظام میں آجائیں اور ماضی میں ہم نے کوشش کرکے 30 فیصد آبادی کو بینکنگ نظام کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بینکنگ نظام دنیا کی ضرورت بن چکا ہے کیونکہ نقد لین دین پر لوگوں کو شکوک ہوتے ہیں اور اس میں دہشت گردی جیسے عوامل میں معصوم لوگ استعمال ہوتے ہیں جس کو روکنے کے لیے بھی بینکنگ نظام ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی مالیاتی نظام کا مقصد وسیع تر انصاف کا حصول اور شریعت کو عملی جامہ پہنانا ہے تاکہ سماجی اور اقتصادی ترقی حاصل کی جاسکے اور معاشرے کی تمام طبقات کی بنیادی ضروریات پوری کی جاسکیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سودی نظام شریعت میں جائز نہیں ہے کیونکہ ایک بار آپ نے پیسے دے دیے پھر کسی کا کام چلے یہ نہ چلے آپ کو پیسے چاہئیں، مگر بدقسمتی سے سود کا غیر رسمی نظام بہت بھیانک ہے جس سے غریب لوگ شدید متاثر ہیں جن کی بینکنگ نظام تک رسائی نہیں ہوتی لیکن اس نظام کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔

’ہماری حکومت اسلامی بینکنگ نظام میں دلچسپی رکھتی ہے‘

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت اسلامی بینکنگ نظام میں دلچسپی بھی رکھتی ہے اور عملی طور پر کوشش بھی کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی بینکوں کے اثاثے 70 کھرب روپے ہیں اور ان کے ڈپازٹس 5 ہزار ارب کے ہیں یعنی اس کا بنیاد پڑ چکی ہے لیکن ہمیں نیت کے ساتھ پاکستان میں اس کو کامیاب نظام بنانا ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ کچھ برس سے ہمارے پاس یہ نظام ہے مگر اب یہ ہم پر ہے کہ اس کو کس طرح آگے لے جاتے ہیں، اس وقت ملک میں 21 فیصد اسلامی بینکنگ نظام آچکا ہے جبکہ اسے ابھی مزید تیز رفتاری سے بڑھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سود سے پاک معاشرے کے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لیے اسلامی بینکنگ کے ساتھ ساتھ غیر بینکاری شعبوں کو بھی اسلامی بنیادوں پر ترقی دینی ہوگی۔

’2013 سے اسلامی مالیاتی نظام کو فروغ دینے کے لیے کافی اقدامات کیے‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ 2013 سے ہم نے ملک میں اسلامی مالیاتی نظام کو فروغ دینے کے لیے کافی اقدامات کیے جن میں سے تمام اہم شراکت داروں پر مشتمل اعلیٰ سطح کی اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی جس پر 3 سال کام ہوا اور 2016 میں اس کمیٹی نے سفارشات مرتب کیں۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات کے پیش نظر مولانا تقی عثمانی نے تجویز کیا کہ اسٹیئرنگ نافذ کمیٹی بھی بنائی جائے جس کے لیے بھی میں نے 2016 میں نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا مگر 2016 کے بعد ملک میں پاناما کے ڈرامے شروع ہوئے جس میں تمام کام رک گیا اور آج ہم وہاں کھڑے جہاں پہلے کھڑے تھے۔

اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ جہاں 2016 میں ہم پہنچے تھے اگر وہ سلسلہ جاری رہتا تو آج ہم 40 فیصد اسلامی بینکنگ نظام حاصل کر چکے ہوتے۔

’5 سال میں اسلامی بینکنگ نظام میں تیزی آ سکتی ہے‘

انہوں نے کہا کہ ہم اگر اس نظام پر تیز رفتاری سے کام کریں تو 5 سال میں بہت کچھ کر سکتے ہیں، گزشتہ حکومت میں ہم نے اسلامی نظام کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں کو 2 فیصد ٹیکس میں بھی رعایت دی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ حکومت ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور شرعی عدالت کے سود سے متعلق فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، اگر ہم خلوص نیت سے صرف اللہ کی رضا کے لیے فیصلہ کریں تو 5 سالوں میں ملک سے سود کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس رفتار سے پاکستان ترقی کر رہا تھا دنیا کے ممالک نے کہا کہ پاکستان جی 20 کا رکن بھی بن جائے گا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی، جس طرح اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ دینا ہے اسی طرح پاکستانی معیشت کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔

’2013 میں بھی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی گئیں‘

وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013 میں بھی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی گئیں مگر ہم نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اچھی کارکردگی دکھائی جس پر دنیا نے پاکستانی معیشت کی تعریف کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک پر دنیا کی بدترین معاشی پابندیاں عائد ہوئیں مگر کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی، مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ملک کے خود ہی دشمن ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے ہیں، اگر مالیاتی نظم و ضبط نافذ کریں تو اس ملک کے وزیر خزانہ کو پانچ سال تک جلاوطن رہنا پڑتا ہے۔

اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ عام بینکوں کے مقابلے اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ دینا ہوگا اور مزید بہتری لانی ہوگی اور پھر ایسا نہ ہو کہ جس طرح ٹیکس سے بھاگ رہے ہیں بعد میں زکوۃ سے بھی دور بھاگیں۔

انہوں نے مفتی تقی عثمانی کی اس تجویز کی تائید کی کہ سودی بینکنگ کو مزید برانچ کھولنے کی اجازت نہ دی جائے اور ان کو جواب دیا کہ ملک ادھار پر چلتا ہے اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اسلامی بینکوں میں رکھے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے جو قراردادیں پیش کی ہیں ان کی نقل وزیر اعظم کے پاس لے کر جاؤں گا کیونکہ ان میں پارلیمان سمیت ایک سے زائد وزارت کی مداخلت ہے۔


قراردادیں

مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ تمام گفتگو کے بعد جو قراردادیں اس اجتماع کی طرف سے منظور ہونی چاہئیں وہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

پہلی قرار داد

  1. تمام مکاتب فکر کے علما، دینی تنظیموں اور تاجر برادری کا یہ نمائندہ اجتماع وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے، جس میں حکومت پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 5 سال کی مدت میں ملک کی معیشت کو سود سے پاک کرکے غیر سودی اسلامی نظام معیشت قائم کریں۔

  2. وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک کی طرف سے دائر درخواستیں واپس لی جارہی ہیں اور شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ملک سے سود ختم کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کیا جائے گا۔

  3. اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت کو اس حوالے سے ہر کام میں تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔

  4. مطالبہ کرتے ہیں کہ اہم کام کے لیے ایسے فوری اقدامات کیے جائیں، جن سے اس مقصد کی طرف بامعنی پیش رفت واضح طور پر نظر آئے۔

دوسری قرار داد

  1. نمائندہ اجتماع تشویش کا اظہار کرتا ہے، اگرچہ مرکزی بینک اور نیشنل بینک نے شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے لیکن جن نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں نے اپیلیں دائر کی تھیں، انہوں نے ابھی تک وہ اپیلیں واپس نہیں لیں۔

  2. اور یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ بینکوں اور مالیاتی اداروں میں جو سود لیا اور دیا جاتا ہے وہ ربا کی تعریف میں نہیں آتا حالانکہ یہی مؤقف ہے جو اعلیٰ عدالتوں نے 3 مرتبہ مستحکم دلائل کے ساتھ مکمل طور پر رد کر دیا۔

  3. پہلے یہ مسئلہ وفاقی شرعی عدالت میں 1991 میں زیر بحث آیا، اس میں حکومت کو سود ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔

  4. پھر سپریم کورٹ کی شریعت بینچ میں یہ اپیل 8 سال زیر التوا رہی، آخر کار اس میں بھی سپریم کورٹ کی تاریخ کا سب سے ضخیم فیصلہ آیا، جس میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا۔

  5. اس کے بعد نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی، اور بینچ کو توڑ کر نیا بینچ بنایا گیا جس نے یہ مسئلہ دوبارہ شرعی عدالت کو بھیج دیا جہاں وہ 20 سال تک پڑا رہا۔

  6. 2022 اس عدالت نے بھی تفصیلی سماعت کے بعد وہی فیصلہ دیا جو اس کے قبل دو اعلیٰ عدالتیں دے چکی ہیں، اس طرح یہ تین اعلیٰ عدالتوں کا متفقہ فیصلہ ہے، جو قرآنی احکام کے عین مطابق ہے۔

  7. ایک بار پھر اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس متفقہ فیصلے کو 31 سال کی جدوجہد کے بعد پھر غیر معینہ مدت کے لیے سرد خانے میں ڈالنے کا بہانہ بنایا جائے۔

  8. یہ نمائندہ اجتماع نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے پُر زور مطالبہ کرتا ہے کہ اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی طرح وہ بھی اپنی اپیلیں فوراً واپس لے کر اپنا نظام سود سے پاک کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔

  9. اگر نجی بینکوں نے اپیلیں واپس نہ لیں تو یہ اجتماع عوام سے اپیل کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ ایسے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا بائیکاٹ کریں۔

تیسری قرارداد

  1. حکومت سے مطالبہ ہے کہ خوش آئند اعلان کے مطابق مقررہ مدت میں ملک کو سودی نظام سے نجات دلانے کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کا آغاز کرے، جس کے لیے یہ کرنا ضروری ہے۔

  2. وزارت خزانہ میں فوری طور پر غیر سودی نظام قائم کرنے کے لیے ایک مستقل ڈویژن اور ٹاسک فورس قائم کی جائے، جو اس اہم کام کے لیے ایک عملی نقشہ تیار کرکے مرحلہ وار سود کا خاتمہ کرنے کی مجاز ہو۔

  3. 1978 سے 2015 تک مختلف اداروں نے اس موضوع پر تفصیلی غور و خوص کرکے ضخیم رپورٹیں تیار کی ہیں، سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ملک سے سود کا خاتمہ قابل عمل ہے اور ان میں اسلام کا طریقہ کار بھی تجویز کیا گیا تھا، ان کا کام سفارشات پیش کرنے کی حد تک محدود تھا، اب کسی سفارشی کمیٹی کی ضرورت نہیں۔

  4. ایسی بااختیار ٹاسک فورس کی ضرورت ہے، جو ان سفارشات کو عملی طور پر نافذ کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔

  5. بعض صوبوں میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں، جن میں قرضوں پر سود کی ممانعت کی گئی ہے، یہ قوانین پورے ملک میں نافذ کر دیے جائیں۔

  6. بعض ادارے ایسے ہیں جنہیں فوری طور پر سود سے پاک کرنے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہیں، مثلاً ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، پنشن فنڈز، سیونگ فنڈز اور کنزیومر فنانس کے دوسرے شعبے ہیں، انہیں بلاتاخیر فوراً سود سے پاک کیا جائے۔

  7. موجودہ قوانین بینکوں اور مالیاتی اداروں کو براہ راست تجارت سے منع کرتے ہیں، ان قوانین پر نظر ثانی کرکے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے یہ پابندی اٹھائی جائے۔

چوتھی قرار داد:

  1. ملک کے دستور کی دفعہ 227 غیر مبہم الفاظ میں قرار دیتی ہے کہ ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا، اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، اس دفعہ کو عملی طور پر مؤثر بنانے کے لیے دفعہ 203 کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کے لیے سپریم کورٹ میں شریعت اپیلٹ بینچ تشکیل دی گئی تھی، ان میں علما ججوں کی شمولیت بھی ضروری تھی۔

  2. یہ اجتماع تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ اس وقت یہ اہم ترین ادارے تقریباً معطل ہیں، وفاقی شرعی عدالت میں اس وقت صرف 2 جج ہیں اور اس میں کوئی عالم دین شامل نہیں جبکہ شروع میں 7 ججوں پر مشتمل تھی جس میں 3 علمائے دین تھے، اسی طرح سپریم کورٹ کی شریعت بینچ بھی عرصہ دراز سے معطل ہے۔

  3. یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ وفاقی شریعت اور سپریم کورٹ کی شریعت بینچ کو فعال کیا جائے اور ان کی خالی جگہوں کو علما سے پُر کیا جائے۔

پانچویں قرارداد:

  1. ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ترمیم کرکے اسے شریعت کے مطابق بنایا جائے، جن لوگوں میں مرد اور عورت دونوں کی مشابہت پائی جاتی ہے، ان کے حقوق کا تحفظ اور معاشرے میں باعزت مقام دینا بے شک ضروری ہے لیکن ان کی جنس کا تعین خالص حیاتیاتی معاملہ ہے، شریعت نے بھی طبی اصولوں پر چھوڑا ہے۔

  2. صرف خواہش کی بنیاد پر مرد کو عورت یا عورت کو مرد تصور کیا جائے، یہ ایکٹ اسی غیر شرعی تصور پر مبنی ہے، جو ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہیں، وہ فوری طور پر نافذ کی جائیں۔

  3. جوائے لینڈ کے نام سے جو فلم جاری کی گئی ہے، وہ اسلامی اقدار کے خلاف ہے، اس کی نمائش پر پابندی کے پنجاب حکومت کےفیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، وفاق اور دوسرے صوبے بھی اس پر پابندی عائد کریں۔


یہ مسئلہ صرف مذہبی لوگوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

اس موقع پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج تاخیر سے صحیح لیکن پاکستان کی بنیاد اور اساس سے ہمیں قرآن پاک اور سنت نبویؐ کی روشنی اور بانی پاکستان کے فکر کی روشنی میں بھی اس طرف مؤثر اقدامات کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج کا سیمینار جس موضوع پر منعقد کیا گیا ہے اس ضرورت کے تحت وفاقی شرعی عدالت نے سود سے پاک معیشت ملک میں نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور میں نے وزیر اعظم سے اس پر عملدرآمد کے لیے بات کی، اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی طرف سے اس فیصلے پر دائر درخواستوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اس مطالبے پر درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیمینار میں کاروباری کمیونٹی کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ ان کی طرف یہ پیغام جائے کہ یہ مسئلہ صرف مذہبی لوگوں کا نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان پوری قوم کا مسئلہ ہے۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ پارلیمان اور اقتدار میں آنا منزل نہیں بلکہ منزل کی طرف آگے بڑھنے کا حصہ ہوا کرتا ہے اور اگر آپ حکومت میں آئے اور اس میں جو آپ کے پاس اثر و رسوخ اور وسائل ہیں یہ آپ پر ہے کہ کس طرح آپ مقصد کی طرف آگے بڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ بعد میں پتا نہیں کس کی حکومت آئے اور کیا تبدیلیاں لائے مگر کچھ پالیسیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی جگہ پکڑتی ہیں اور اگلی حکومتیں بھی ان کو سلسل دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک پارٹی یا فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ عوام کی حکمرانی ہے مگر ریاست کی زبان آئین ہوتی ہے اور آئین یہ کہتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت ہوگی، لہٰذا ہم ریاست کی زبان میں بات کریں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 1973 سے لے کر ہر سال جو بھی فنانشل بلز پاس کرتے ہیں وہ سود پر مبنی ہوتا ہے اور تمام بجٹ بھی سود پر ہی مبنی ہوتے ہیں جو کہ آئین کی نفی ہے مگر اب ہم ٹریک پر آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ میں نے اپنی پارٹی کے نظریے کو تحلیل کردیا ہے اور اگر کوئی نظریاتی معاملہ آتا ہے تو اپنی حکومت کے ساتھ بگڑ جاتے ہیں۔

پی ڈی ایم سربراہ نے وزیر خزانہ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت عرصہ جلاوطنی میں ملک سے باہر رہے ہیں اور جب ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تو یہ وہ پہلا شخص تھا جس کے بارے میں میری یہ سوچ تھی کہ پہلی بار ریاست کو اس شخص کی ضرورت پڑ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داریوں میں امن اور معیشت شامل ہیں اور قرآن کریم نے بھی مملکت میں معیشت اور امن کا ذکر کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے مفتی تقی عثمانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب سرکار کے ماحول میں ہمیں سود سے پاک معیشت نہیں مل رہی تھی اور بینکوں کا نظام سود سے بھرا ہوا تھا تو آپ (مفتی تقی) نے نجی بینکنگ شعبے میں اسلامی نظام کا آغاز کیا تھا۔

سود کی لعنت ختم کرنے کیلئے متفقہ آواز بلند کرنا مقصد ہے، مفتی تقی عثمانی

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ مقدس مقصد ملک سے سود کی لعنت ختم کرنے کے لیے متفقہ آواز بلند کرنا اور اس کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں سے یہ مطالبہ کرنا ہے کہ اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی کوششیں کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہم کچھ نظریاتی اختلافات کی وجہ سے سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی مکاتب فکر میں تقسیم ہیں، جنہیں بعض اوقات فرقوں سے بھی تعبیر کر دیا جاتا ہے۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان نظریاتی اختلافات کا دائرہ اکثر بہت تنگ ہے، جنہیں صرف علمی حلقوں تک محدود رہنا چاہیے، اس کے برعکس امت کے جن مسائل کا عالمی اور ملکی سطح پر ہمیں سامنا ہے، اور جن کو نظر انداز کرکے ہم بہت دکھ اٹھا چکے ہیں، وہ بیشتر اجماعی نوعیت کے مسائل ہیں، جن میں کسی کا اختلاف نہیں۔

’مسائل کی طرف پوری توجہ صرف کریں تو ان کا حل نکالنا مشکل نہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سب مل کر ان مسائل کی طرف پوری توجہ اور صلاحیتیں صرف کریں تو ان کا حل نکالنا کچھ مشکل نہیں، اس لیے مدت سے خیال تھا کہ ایک ایسا فورم وجود میں آئے جو ان سلگتے ہوئے مسائل پر تمام مکاتب فکر اور دینی تنظیموں کو اپنے سیاسی، جماعتی یا مسلکی تشخص سے ماورا ہو کر متفقہ مؤقف پیش کرنے اور اسے تحریک دینے کی شکل دے تو انشا اللہ کامیابی کی بڑی امید ہے۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی اجماعی مسئلے پر تمام مکاتب فکر اکٹھے ہوئے تو اس کا نتیجہ ہمیشہ بہت خوش آئند رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری مدت سے یہ تمنا تھی کہ ایسے فورم کی مستقل ضرورت ہے جو مسلکی اور سیاسی وابستگی سے الگ ہو کر اجماعی مسائل مثلاً فحاشی اور عریانی کے خاتمے، نظام تعلیم کی تطہیر، عوام کی اخلاقی اور معاشرتی تربیت وغیرہ کے حوالے سے فریضہ انجام دیں، اس سے بڑی خیر کی امید ہے۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ پہلے قدم کے طور پر آج کا اجتماع تمام مکاتب فکر کا نمائندہ اجتماع ہے، سود کے خاتمے کی جدوجہد کے لیے منعقد کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت خوشی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علما نے عاجزانہ دعوت کو قبول فرمایا۔

سود کے خاتمے میں آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ورکنگ گروپ فعال کر دیا، گورنر اسٹیٹ بینک

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ ہم نے جامع ٹرانسفارمیشن پلان پر پہلے ہی کام شروع کر دیا ہے جس کا مقصد روایتی بینکاری کو اسلامی بینکاری نظام میں تبدیل کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی تمام اسٹیک ہولڈ سے رابطہ کرکے تاکہ سود کے خاتمے میں آنے والے متعلقہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جاسکیں۔

مرکزی بینک کے گورنر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اعلیٰ سطح کے ورکنگ گروپ کو فعال کر دیا ہے، جس میں مرکزی بینک، ایس ای سی پی، وزارت خزانہ اور پاکستان بینک ایسوسی ایشن کے سینئر ایگزیکٹو سمیت شریعہ اسکالرز اور اسلامی فنانس کے تین سینٹرز بھی شامل ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج ہم ان چند ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے اسلامی بینکنگ انڈسٹری کے لیے قانونی، ضوابطگی اور شریعہ گورننس کا ایک جامع فریم ورک تیار کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بہترین بین الاقوامی روایت پر عمل کرتے ہوئے بہت سی کوششیں کی گئی ہیں، جس میں بینکاروں کی استعداد کار میں اضافہ اور ان کے لیے اویرنس فراہم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی بینکنگ کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے لیے تاکہ وہ روایتی بینکوں کے ساتھ اچھے طریقے سے مسابقت کرسکیں، اس سلسلے میں بھی ہم نے ترجیحی بنیادوں پر بہت سے اقدامات ہیں تاکہ اسلامی بینکاری کو فروغ دیا جاسکے۔

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان میں مکمل اسلامی بینکاری فراہم کرنے والے 5 بینک ہیں، اور 17 روایتی بینک بھی اسلامی بینکاری کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

’اسلامی بینکنگ ملک کے بینکاری نظام کا لازمی جزو بن چکی‘

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی بینکنگ ملک کے بینکاری نظام کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے، اور اس نے مجموعی بینکنگ انڈسٹری کے اثاثوں اور ڈپازٹس میں بالترتیب 20 اور 21 فیصد کا مارکیٹ شیئر حاصل کر لیا ہے جبکہ گزشتہ 5 برسوں میں سالانہ شرح نمو بالترتیب 25 اور 22 فیصد رہی ہے، یہ روایتی بینکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

جمیل احمد کا کہنا تھا کہ اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ملک میں اسلامی بینکاری کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے، اسی لیے مرکزی بینک اور حکومت میں مزید اقدامات کر رہے ہیں تاکہ عوام کی ڈیمانڈ کو پورا کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی بینکاری نے کئی قسم کی مصنوعات کی پیشکش کی ہے، جس میں فنانسنگ کے تقریباً وہ تمام طریقے شامل ہیں، جن سے معیشت کے بیشتر شعبوں کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپریل 2022 میں وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں سود کے مخصوص وقت میں خاتمے کے متعلق ہدایات جاری کی تھیں، اسٹیٹ بینک نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، اور اس فیصلے کو اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کے حوالے سے اپنے مضبوط عزم کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلے کے خلاف اپنی اپیلیں واپس لے لی ہیں، نیشنل بینک آف پاکستان نے بھی اپنی اپیل واپس لے لی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں