کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کے دعوے اور اس کے عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں دہشت گرد حملوں کی ہدایات کے پیش نظر حکومت سے اس تازہ صورتحال پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فوری طلب کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنرل عاصم منیر کے پاک فوج کی کمان سنبھالنے کے ایک روز بعد پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو بےخبر رکھا جا رہا ہے، پُرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں 28 نومبر کو ٹی ٹی پی نے اعلان کیا تھا کہ وہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ رواں سال جون سے طے شدہ جنگ بندی کو ختم کر رہی ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی (پی سی این ایس) کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی جو کہ ان کے بقول اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو اس کی صدارت سے ہٹانے سے ممکن ہو سکے گی کیونکہ وقت کی کمی کے باعث وہ مؤثر طریقے سے پی سی این ایس کی سربراہی نہیں کر پا رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند ماہ سے ملک بھر میں اور بالخصوص خیبرپختونخوا میں دہشت گردی میں اضافے کے باوجود ریاست حقائق کو چھپا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے جنگ بندی کے خاتمے کے ساتھ دہشتگردی کے دوبارہ ابھرنے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ریاست عوام کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے کیونکہ یہ اعلان ٹی ٹی پی کی جانب سے سامنے آیا‘۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ’حملے، بھتہ خوری اور اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات اس کا واضح ثبوت تھے، سوات کے عوام نے دہشت گردی میں اضافے کے خلاف بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالیں لیکن ریاست نے محض بے گناہ شہریوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ لگانے پر ہی اکتفا کیا‘۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے 4 برس گزرجانے کے باوجود ریاست مناسب انفراسٹرکچر فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست نے پرامن عوامی تحریکوں کی معاونت سے انکار کر دیا ہے جو عسکریت پسندی کے خلاف کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دہشت گردی میں اضافے پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا بار بار مطالبہ کیا لیکن اس پر کان نہیں دھرے گئے۔

گزشتہ برس جب ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا اُس وقت بھی سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ’ٹی آر ٹی‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے کی صورت میں عام معافی کی پیشکش کی تھی، اس پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھا کہ ’پاکستان کی پارلیمنٹ کو غیرضروری سمجھے جانے کے بجائے بہتر ہے کہ اسے تالا لگا کر چابی پھینک دی جائے‘۔

اسی انٹرویو میں سابق وزیراعظم نے انکشاف کیا تھا کہ ٹی ٹی ٹی پی کے چند مفاہمت کے خواہاں گروپوں کے ساتھ حکومتِ پاکستان مذاکرات کررہی ہے۔

پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات گزشتہ برس اکتوبر میں پی ٹی آئی حکومت کے دوران شروع ہوئی تھی لیکن رواں برس مئی میں قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی منسوخی پر یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔

فوج کے ساتھ ٹی ٹی پی کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد ستمبر سے ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے، زیادہ تر حملے خیبرپختونخوا کے ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کے اضلاع اور اس کے آس پاس ہوئے ہیں، کوئٹہ میں ہونے والا دھماکا اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔

ٹی ٹی پی کے مطابق جنگ بندی ختم کرنے کا فیصلہ ضلع لکی مروت میں فوجی تنظیموں کی جانب سے مسلسل حملوں کے بعد کیا گیا۔

ٹی ٹی پی نے کہا کہ ہم نے پاکستانیوں کو بارہا خبردار کیا اور صبروتحمل کا مظاہرہ کیا تاکہ مذاکراتی عمل سبوتاژ نہ ہو لیکن فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں باز نہ آئیں اور حملے جاری رکھے، اب ہمارے جوابی حملے بھی پورے ملک میں شروع ہوں گے’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں