پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے) کے چیئرمین نے کہا کہ مارکیٹ میں سویا بین کی شدید قلت کے باعث روزانہ 20 لاکھ سے 30 لاکھ مرغیاں ضائع ہورہی ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمود اشرف نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پورٹ قاسم میں گزشتہ دو ہفتوں سے پھنسے ہوئے سویا بین کے کنٹینر کی فوری کلیئرنس دی جائے ، حکومت کے غیر ضروری اقدام کی وجہ سے ملک بھر میں جانوروں اور کاروبار کو شدید نقصان ہورہا ہے جس کے سبب شہری پولٹری کی مصنوعات مہنگے دام پر خریدنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 6 ملین ٹن سویا بین سے لدے 4 بحری جہاز ہیں بندرگاہ پر موجود ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ کسٹم حکام نے درآمد کنندگان کو بندرگاہ سے مال نیچے اتارنے سے منع کیا تھا اس کے پیچھے یہ وجہ تھی کہ درآمد شدہ سویا بین جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیچ ہے اور اسے کاشت کے لیے استعمال کیا جائےگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ اقدام انتہائی مضحکہ خیر ہے‘ مخصوص سویا بین پولٹری اور مویشیوں کی خوراک کا جُز ہے، یہ کاشت کے لیے نہیں بلکہ کرشنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہم دو دہائیوں سے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیچوں کو درآمد کررہے ہیں، اس عرصے میں ہمیں کبھی اس قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ہماری بات سننے سے انکار کردیا ہے۔

پولٹری ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے مزید کہا کہ حکومتی عہدیداروں نے اس سے قبل جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیچوں کو آف لوڈ کرنے کے لیے درآمد کنندگان کو این او سی جاری کیا تھا۔

محمد اشرف نے کہا کہ دنیا بھر میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیچوں کو کرشنگ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ہنگائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دوران حکومت کے اس اقدام سے عوام باالخصوص غریب گھریلو صارفین پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 20 نومبر سے پہلے فی درجن انڈوں کی قیمت 240 روپے سے بڑھ کر 295 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

پولٹری ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے کہا کہ سویا بین، زیادہ تر امریکہ اور برازیل سے درآمد کیا جاتا ہے، یہ جانوروں کے کھانے کا 40 فیصد حصہ تھا جو کمرشل پولٹری فارم کے لیے پروٹین کا واحد ذریعہ ہے۔

محمد اشرف نے کہا یہ پروٹین مرغیوں کی نشوونما میں تیزی سے اضافہ کرتا ہے، بد قسمتی سے مارکیٹ میں اس کا متبادل پروٹین موجود نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پروٹین نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر 20 لاکھ سے 30 لاکھ مرغیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔

پولٹری میں موجود جانوروں کو پروٹین دینے کے لیے مچھلی کے استعمال کے سوال پر پولٹری ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے کہا کہ یہ طریقہ اب استعمال نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دو دہائیوں قبل کسان اسے استعمال کرتے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ سویا بین میں تبدیل ہوچکا ہے اور یہ زیادہ فائدہ مند ہے، ہمارے پاس جس قسم کی مچھلیاں ہیں وہ آلودہ ہیں جس کے سبب کئی مرغیوں کی اموات واقع ہوئی تھی، لیکن سویا بین میں موجود پروٹین برغیوں کی نشوونما میں تیزی سے اضافہ کرتا ہے اور آلودگی سے بھی پاک ہے۔

پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے حکومت پر زور دیتے ہوئے اس معاملے پر کارروائی کرے اور سیکٹروں ذریعہ معاش اور پولٹری انڈسٹری میں موجود ہزاروں ملازمین کا روزگار محفوظ بنائے۔

انہوں نے مرغیوں کے کھانے کے دوسرے اہم جُز ’مکئی‘ کے استعمال اور اس کے تحفظ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

اس موقع پر پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین (جنوبی ریجن) غلام محمد نے بھی خطاب کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں