دفتر خارجہ نے بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کی 30 ویں برسی پر اس طرح کے مزید سانحات رونما ہونے کے خدشات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند ’ہندوتوا‘ دیگر مساجد کو بھی مندر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس میں وارانسی کی گیانواپی مسجد بھی شامل ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے مطالبے سے بابری مسجد جیسے مزید سانحات رونما ہو سکتے ہیں۔

دفتر خارجہ نے بیان میں بتایا کہ بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں، بھارت میں حکمراں جماعت مسلسل مسمانوں کے خلاف نفرت پیدا کر رہی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ آج بھارت کے شہر ایودھیا میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں تاریخی بابری مسجد کے انہدام کی 30 ویں برسی ہے، یہ موقع بھارت میں اس وقت سے بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جنون کی ایک افسوس ناک یاد دہانی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم بابری مسجد کی تباہی کے ذمہ دار مجرموں کی بریت کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے اپنے مختلف اعلانات کے ذریعے مطالبہ کیا ہے، ہم بھی بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بابری مسجد کو اس کی اصل جگہ پر دوبارہ تعمیر کیا جائے اور اس کی تباہی کے ذمہ دار مجرموں کو سزا دی جائے۔

ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کو بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے، ہم عالمی برادری، اقوام متحدہ اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انتہا پسند ’ہندوتوا‘ حکومت سے بھارت میں اسلامی ورثے کے مقامات کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کا نوٹس لے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری پیغام میں انہوں نے کہا کہ آج تاریخی بابری مسجد کی شہادت کی30 ویں برسی منائی جا رہی ہے، ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے شروع کیا گیا تبدیلی کاعمل اب بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی زندگیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کا نوٹس لینا چاہیے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے مذمت کرتے ہوئے سماجی رابطے کے ویب سائٹ پر جاری بیان میں بتایا کہ بھارت میں ایودھیا میں ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم کی جانب سے تاریخی بابری مسجد کو شہید کیے ہوئے 30 سال ہو گئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہبی جنونیت اور اسلامو فوبیا کی قوتوں نے اس سیاہ دن کو جنم دیا ہے، جو بھارت میں طاقت میں بڑھ چکے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اسلامی ورثے کی لازمی حفاظت کی جانی چاہیے۔

بھارت میں اسلامی ورثے کو خطرات لاحق

دوسری جانب، سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد شہید کرنے کے 30 سال بعد اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے تاریخی تاج محل پر اپنی میلی نظریں جمانا شروع کر دیا ہے، جس سے بھارت میں اسلامی ورثہ خطرات کا شکار ہوگیا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ وہ جھوٹے دعوے کر رہے ہیں کہ تاج محل کی ابتدا ہندو دور میں ہوئی، نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کی طرف سے دائر کی گئی حالیہ رٹ پٹیشن میں تاج محل کی ’حقیقی تاریخ کا مطالعہ‘ کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کا مقصد یونیسکو کے ثقافتی ورثے کی جگہ تاج محل کو ہندوؤں کا ورثہ قرار دینا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایودھیا میں بی جے پی کے میڈیا سربراہ رجنیش سنگھ نے اپنی درخواست میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ’سائنسی ثبوت‘ نہیں ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کیا تھا۔

مزید کہا گیا کہ باوجود اس کے کہ بھارتی عدالت نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنایا تھا تاہم بی جے پی کے رہنما کئی برسوں سے غیر تاریخی دعوے دہراتے اور بڑھاتے رہے ہیں کہ تاج محل درحقیقت ایک ہندو مندر ہے، جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا، ہندوتوا کے ساتھ آر ایس ایس پورے بھارت میں مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ تاریخی یادگاروں کے خلاف بیانیہ پیش کر رہی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بی جے پی کے دور حکومت میں آر ایس ایس کے دائیں بازو کے ہندو شہروں کے نام تبدیل کرنے اور بھارت بھر میں 36 ہزار سے زیادہ مساجد کو مندر کی جگہ پر تعمیر کرنے کے جھوٹے دعووں پر مشتمل مہم چلا رہے ہیں ان شہروں میں علی گڑھ، دیوبند، فرخ آباد، بدایوں، سلطان پور، فیروز آباد اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یوپی حکومت پہلے ہی فیض آباد کا نام ایودھیا اور الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر چکی ہے، مودی کے قریبی معاون اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلم پس منظر اضلاع اور علاقوں کے نام بدل کر مسلم شناخت کو مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، 2017 میں ونئے کٹیار، جو اس وقت بی جے پی کے راجیہ سبھا کے رکن تھے، نے دعویٰ کیا کہ یہ یادگار درحقیقت ایک شیو مندر ہے جس کا نام ’تیجو مہالیہ‘ ہے، جسے ”اصل میں“ ایک ہندو حکمران نے بنایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق تاج محل کے حالیہ واقعے نے 6 دسمبر 1992 کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے زخم کو پھرتازہ کر دیا ہے، رام جنم بھومی موومنٹ کے صدر ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت بی جے پی اور آر ایس ایس کے اس دعوے کو تقویت دینا تھا کہ ایودھیا میں مندر اس جگہ پر بنایا گیا تھا جہاں ہندو دیوتا بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ہندو قوم پرست گروپ وشوا ہندو پریشد (آر ایس ایس کے ذیلی گروپ) کے ترجمان شری راج نائر نے کہا کہ یہ ایک بڑی کامیابی تھی، مودی کے دوسرے دور حکومت میں بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمان کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بری کر دیا تھا، باوجود اس حقیقت کے کہ بابری مسجد کی شہادت اخبارات اور ویڈیو زمیں ریکارڈ ہوئی ،عدالت نے کہا کہ ثبوت قابل قبول نہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ہندوتوا کے نظر یہ کے تحت قبضہ میں لی گئی بابری مسجد واحد نہیں ہے قبل ازیں 17ویں صدی کی گیانواپی مسجد جو مغل بادشاہ اورنگزیب نے تعمیر کرائی تھی پر بھی انتہا پسند ہندوئوں کا دعویٰ ہے کہ یہ وشویشور مندر کے اوپر بنائی گئی تھی جہاں 2021 میں کشیدگی اس وقت پھیلی جب پانچ خواتین نے ایک پٹیشن دائر کی اور مسجد کے اندر نماز پڑھنے کے لیے رسائی کا مطالبہ کیا، ایک ہی پٹیشن اب بڑھ کر 15 الگ الگ درخواستوں تک پہنچ گئی ہے، جس میں بہت سے لوگوں نے مسجد کو شہید کرنے اور اس کی جگہ مندر بنانے کا مطالبہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کے بعد اب یہی امکان ہے کہ مودی حکومت کے تحت عدالتیں ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیں گی، 1669 میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے دور میں متھرا میں تعمیر کی گئی شاہی عیدگاہ مسجد کے بارے میں بھی انتہا پسند ہندو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ مسجد کیشو دیو مندر پر بنائی گئی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ علاوہ ازیں دائیں بازو کے ہندو گروپ جامع مسجد شمسی کے متعلق بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں، اسے نیل کانٹھ مہادیو کے مندر کو گرا کر تعمیر گیا، بدقسمتی سے، عالمی برادری نے بھارت میں بی جے پی کی زیر قیادت ہندوتوا کی طرف سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، بھارت میں مسلمانوں کے تاریخی ورثہ اور املاک کی حفاظت کے لئے عالمی سطح پر ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت ہے ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں