توہین عدالت کیس: اسد عمر نے غیر مشروط معافی مانگ لی

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2022
اسد عمر  نے کہا کہ میری تقریر میں کسی جج کا نام نہیں تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
اسد عمر نے کہا کہ میری تقریر میں کسی جج کا نام نہیں تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگ لی۔

واضح رہے کہ دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران سڑکیں بند کرنے کے خلاف راولپنڈی کے تاجروں کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسد عمر کو ان کے توہین آمیز ریمارکس پر آج ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے جسٹس جواد حسن نے سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر کو جاری توہین عدالت نوٹس پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالتی حکم پر اسد عمر اپنے وکیل ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس جواد حسن نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کہاں ہیں ان کو پیش کریں، اسد عمر نے روسٹرم پر آکر عدالت سے اپنی تقریر پر غیر مشروط معافی مانگی، انہوں نے کہا کہ میرا مقصد کسی بھی جج یا عدلیہ کو نشانہ بنانا نہیں تھا، ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، اگر میری تقریر سے کوئی لائن کراس ہوئی ہے تو میں عدالت سے معافی مانگتا ہوں۔

جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں نے آپ کو لانگ مارچ کی اجازت دی اور آپ نے عدالتوں پر الزامات لگائے، مسئلہ توہین عدالت کا نہیں، اداروں اور ان کی شخصیات کے اوپر الزامات کا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ میری تقریر میں کسی جج کا نام نہیں تھا، اس پر جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے پاس آپ کا ویڈیو بیان موجود ہے، آپ کو معلوم ہے آپ نے تقریر میں کیا کہا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 50 اور 60 جمہوریت، نقل و حرکت کے حق کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں لیکن اداروں پر تنقید کی نہیں۔

اس دوران اسد عمر نے اپنی تقریر پر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی جس پر عدالت نے درخواستیں نمٹاتے ہوئے کہا کہ دھرنا اور لانگ مارچ ختم ہوگیا ہے، درخواستیں نمٹاتے ہیں۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل تحریک انصاف لانگ مارچ اور دھرنا کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جواد حسن نے سینئر ایڈیشنل رجسٹرار کی اس رپورٹ کا ازخود نوٹس لیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری نے زیر التوا درخواست کے دوران عوامی اجتماع سے خطاب میں مبینہ طور پر توہین آمیز بیان دیا تھا جسے ملک بھر میں نشر کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسد عمر کا یہ بیان اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے جو اعلیٰ عدالتوں اور ان کے ججوں کے خلاف نفرت اور تضحیک کا باعث ہے، ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کی ضرورت ہے۔

اس میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 204 (2) (بی) واضح طور پر کہتا ہے کہ عدالت کو کسی بھی ایسے شخص کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہے جو عدالت کو اسکینڈلائز کرتا ہے یا کوئی بھی ایسا کام کرتا ہے جس سے عدالت یا جج کو نفرت، تضحیک یا توہین کا سامنا کرنا پڑے۔

عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ سینئر ایڈیشنل رجسٹرار کی جانب سے پیش کردہ مذکورہ رپورٹ کے ساتھ منسلک جواب دہندہ اسد عمر کے بیان کے اردو ٹرانسکرپٹ کے مندرجات واضح طور پر آئین کے آرٹیکل 204 (2) (بی) کی دفعات کے ضمرے میں آتے ہیں۔

اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے آج زمان پارک میں اجلاس ہے، اسد عمر

سماعت کے بعد اسد عمر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عدلیہ کے بارے میں کوئی متنازع بات نہیں کی، نہ کسی جج کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، روس سے تیل درآمد کرنے میں بہت دیر کردی ہے، نالائق حکومت نے 8 ماہ ضائع کیے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے آج زمان پارک میں اجلاس ہے، اجلاس میں عمران خان آج فیصلہ کریں گے، ہم اسمبلیاں توڑ کر میدان خالی نہیں بلکہ خود اتر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان پر حکومت ڈگمگا گئی ہے، رانا ثنااللہ کہتا ہے ہر صورت میں اسمبلیاں بچانے کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک عوامی جماعت ہے اور عوام میں ہی جارہی ہے، اسمبلیاں تحلیل کر کے ہم کوئی سیاسی غلطی نہیں کر رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں