اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان طالبان کی جانب سے پہلی بار سرِعام سزائے موت

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2022
حکام کی جانب سے جاری بیان میں سزائے موت پانے والے شخص کا نام تاج میر ولد غلام سرور بتایا گیا — فوٹو: اے ایف پی
حکام کی جانب سے جاری بیان میں سزائے موت پانے والے شخص کا نام تاج میر ولد غلام سرور بتایا گیا — فوٹو: اے ایف پی

افغان طالبان نے تصدیق کی ہے کہ ایک افغان شہری کو قتل کا جرم ثابت ہونے کے بعد سرعام سزائے موت دے دی گئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ طالبان کی جانب سے دی جانے والی پہلی سزائے موت ہے۔

گزشتہ ماہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ شرعی قوانین کو مکمل طور پر نافذ کریں جن میں سرعام پھانسی، سنگسار، کوڑے مارنا اور چوروں کے ہاتھ کاٹنا شامل ہیں۔

اس کے بعد سے کئی مجرمان کو سرعام کوڑے مارے جاچکے ہیں لیکن گزشتہ روز صوبہ فرح کے دارالحکومت میں سرعام دی جانے والی یہ پہلی سزائے موت ہے جس کا طالبان نے اعتراف کیا ہے۔

ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘ جیسے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ شہریوں کے سامنے عوامی سطح پر قصاص جیسے حکم کا اطلاق کریں‘۔

حکام کی جانب سے جاری بیان میں سزائے موت پانے والے شخص کا نام تاج میر ولد غلام سرور بتایا گیا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ صوبہ ہرات کے ضلع انجیل کا رہائشی تھا، اس پر ایک شخص کو قتل اور اس کی موٹر سائیکل اور موبائل فون چوری کرنے کا الزام تھا، متوفی کے ورثا نے اسے پہچان لیا تھا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں واضح کیا کہ مجرم کو سزائے موت مقتول کے والد نے دی جنہوں نے اس شخص کو 3 گولیاں ماریں۔

خیال رہے کہ افغانستان میں اپنے گزشتہ دورِ اقتدار کے دوران طالبان کی جانب سے باقاعدہ طور پر عوامی سطح پر سزائیں دی جاتی تھیں، کابل کے نیشنل اسٹیڈیم میں کوڑے اور پھانسیاں بھی دی جاتی تھیں جہاں مقامی شہریوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔

اس بار افغان طالبان کی جانب سے معتدل طرز حکمرانی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن افغان عوام کی زندگیوں پر تیزی سے سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ سپریم لیڈر کی جانب سے گزشتہ روز دی جانے والی سرعام سزائے موت کے حکم سے قبل متعدد عدالتوں نے اس کیس کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی تھی۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اس معاملے کی بہت مؤثر طریقے سے جانچ کی گئی جس کے بعد بالآخر قاتل پر شرعی قانون لاگو کرنے کا حکم دیا گیا۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں