کالعدم ٹی ٹی پی کی سوات میں واپسی امن مذاکرات کے باعث ہوئی، نیکٹا

08 دسمبر 2022
نیکٹا نے بتایا کہ دہشت گردی کے حالیہ 4 واقعات کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی—فائل/فوٹو: ڈان
نیکٹا نے بتایا کہ دہشت گردی کے حالیہ 4 واقعات کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی—فائل/فوٹو: ڈان

نیشنل کاؤنٹرٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مذاکرات کے دوران پاکستان میں اپنی تعداد اور سرگرمیوں میں بڑی حد تک توسیع دے دی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں نیکٹا کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے دستاویزات پیش کی گئیں جہاں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔

نیکٹا نے کمیٹی کو بتایا کہ امن مذاکرات سے انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور سوات میں ان کی موجودگی کو مقامی لوگوں اور ریاست کے ردعمل سے جوڑا جاسکتا ہے۔

رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ گزشتہ برس افغانستان سے امریکی انخلا سے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو پڑوسی ملک میں اپنی مرکز سے جوڑنے میں مدد ملی۔

نیکٹا نے کہا کہ مجموعی طور پر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور حال ہی میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے 4 واقعات کی ذمہ داری کالعدم تنظیم نے قبول کرلی ہے۔

چاروں واقعات یہ ہیں:

  • اگست 2022 میں کالعدم ٹی ٹی پی نے سوات کے ضلع مٹہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو حراست میں رکھا اور 12 گھنٹے بعد رہا کردیا گیا۔
  • ستمبر 2022 میں سوات میں پولیس پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی۔
  • ٹی ٹی پی نے ایک گاڑی پر آئی ای ڈی حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جس کے نتیجے میں امن کمیٹی کے رکن اور دو پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔
  • موبائل کمپنی کے 7 اہلکاروں کو اغوا کر کے ایک کروڑ روپے تاوان طلب کیا گیا تھا۔

نیکٹا نے صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مالاکنڈ ڈویژن زیادہ متاثر ہے کیونکہ یہ مرکز ہے اور شہری علاقوں تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں۔

سینیٹ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سوات میں معاشرے کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شدید احتجاج کیا تھا جو ایک اچھی پیش رفت ہے، مقامی افراد خاص طور پر سیاسی قیادت انتہاپسندوں کے خلاف متحرک ہوئی اور اس کی اداروں کے انتظام کے ذریعے تحفظ اور تعاون کی ضرورت ہے۔

اجلاس میں کہا گیا کہ علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے سیکیورٹی اداروں کو مشترکہ کوششیں کرنی چاہیے۔

بیان میں کہا گیا کہ سردیوں میں اشیایہ ضروریہ کی کمی اور عدم رسائی کے باعث انتہاپسند ممکنہ طور پر پہاڑی علاقوں سے نقل مکانی کرتے ہیں۔

سینیٹ کمیٹی کو مالاکنڈ ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے بتایا کہ تاحال 200 کارروائیاں کی گئی ہیں، جن مین سے 77 کارروائیاں خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اکثر دہشت گرد کالعدم ٹی ٹی پی سے منسلک ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے اجلاس میں اس معاملے پر ان کیمرا بریفنگ لی جائے گی۔

خیال رہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے گزشتہ ماہ کے آخر میں حکومت کے ساتھ جون میں طے پانے والا سیز فائر ختم کرتے ہوئے اپنے دہشت گردوں کو ملک بھر میں حملوں کا حکم دیا تھا۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان کی وزارت دفاع تحریک کے تمام گروپ لیڈرز، مسئولین تحصیل اور والیان کو حکم دیا جاتا ہے کہ ملک بھر میں جہاں بھی آپ کی رسائی ہوسکتی ہے حملے کریں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’بنوں کے ضلع لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں عسکری اداروں کی طرف سے مسلسل آپریشنز ہو رہے ہیں اور اقدامی حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے‘۔

پاکستان کے عوام کو مخاطب کرکے کالعدم ٹی ٹی پی نے کہا تھا کہ ’ہم نے بارہا آپ کو خبردار کیا اور مسلسل صبر سے کام لیا تاکہ مذاکراتی عمل کم از کم ہماری طرف سے سبوتاژ نہ ہو، مگر فوج اور خفیہ ادارے باز نہ آئے اور حملے جاری رکھے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’اب ملک بھر میں ہمارے انتقامی حملے بھی شروع ہوں گے‘۔

یاد رہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستانی حکومت کے مذاکرات گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہوئے تھے لیکن دسمبر میں معطل ہوگئے تھے۔

بعد ازاں رواں برس مئی میں یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے لیکن اختلاف رائے کی وجہ سے ناکامی ہوئی کیونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کی حیثیت ختم کردی جائے۔

مذاکرات میں ناکامی کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی نے حملے شروع کردیے جن میں ستمبر میں اضافہ ہوا اور اکثر حملے خیبرپختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں ہوئے۔

وفاقی وزارت داخلہ نے اکتوبر میں خبردار کیا تھا کہ ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک برس سے زائد عرصے تک رہنے والے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور ٹی ٹی پی کے اندر اختلافات پائے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ بنیادی مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، جس میں خیبر پختونخوا کے ساتھ سابق فاٹا کا انضمام ختم کردیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے گرفتار اراکین کو رہا کردیا جائے حالانکہ اس وقت مذاکرات جاری تھے۔

وزارت داخلہ نے ٹی ٹی پی کے ذیلی گروپس کی نشان دہی بھی کی تھی جو داعش سے الگ ہوگئے ہیں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ مل رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں