سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکر کا پیپلز پارٹی چھوڑنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2022
سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ  میں اب پارٹی کا حصہ نہیں رہا—فوٹو: ڈان نیوز
سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ میں اب پارٹی کا حصہ نہیں رہا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سابق ترجمان اور سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکر نے پارٹی رکنیت سے مستعفی ہونے کی تصدیق کردی۔

جیو نیوزکے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں بات کرتے ہوئے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ پی پی پی میں اتنا ہوں جتنا مفتاح اسمٰعیل مسلم لیگ (ن) میں ہیں، پیپلز پارٹی کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا، بلاول بھٹو زرداری کا ترجمان رہا اور سندھ سے سینیٹر بھی رہا۔

انہوں نے کہا کہ مزید جاری رکھنا اپنا ضمیر کمپرومائز کرنے کے مترادف ہے، میں اب پارٹی کا حصہ نہیں رہا، پارٹی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت ہی جواب دے سکتی ہے کہ سینیٹ رکنیت سے استعفیٰ کیوں لیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر چند لوگ شاید بلاول بھٹو سے سوال کرتے ہوں کہ اتنی خاص پوزیشن پراتنی جلدی کیسے اور وقت کے ساتھ انہوں نے سمجھا ہو کہ استعفیٰ لینا درست ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، پہلے حدود عبور نہ کرنے پر بات کی جاتی تھی اور اب تو سیاسی جماعتوں نے بھی وہی فیصلے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت جانے کی وجہ ان کے کچھ فیصلے بھی تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے برعکس تھے۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ میں مایوس نہیں ہوں مگر دل مطمئن ہے، میری بس میں جو بھی ہوگا، جتنا بھی وقت ہوگا آواز اٹھاتا رہا ہوں گا مگر اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی جماعتیں سیاست میں بہتری اور پاکستان کے مفاد میں بات کرنے کے لیے اپنے اندر کھل کر سیاسی معاملات پر اظہار کرنے کی جگہ نہیں دیں گی اور وہاں اس ماحول میں حبس کا ماحول ہوگا تو وہ سیاسی تنظیمیں کم بادہشاہت زیادہ لگیں گی۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ موجودہ حکومت ’ہائبرڈ 2.0‘ ہے جیسا کہ شہباز شریف نے آتے ہی وہ فیصلے کیے جو شاید عمران خان نے بھی نہیں کیے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ہم عمران خان کی سیاست، طریقہ کار پر تنقید کرتے تھے اور اس میں جو کچھ ہوا اس ماحول سے گزر کر سوچنا چاہیے تھا کہ ہمیں عمران کو جمہوری انداز میں جواب دینا تھا، مگر ملک کو 90 کی دہائی میں دھکیل چکے ہیں اور اب عمران خان آیا تو وہ بھی بدلہ لینے کی سوچ رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی ماحول کی تلخی میں ہم ترجمان بنے بیٹھے ہوتے ہیں حالانکہ ان سے حکومت کا تعلق نہیں۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ ہم توقع کر رہے تھے کہ عاصم منیر آرمی چیف بنے تو وہ چیزیں درست کریں گے کیونکہ پچھلے چند ماہ میں فوج کی مداخلت کی وجہ سے اس کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اب اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے ہٹ کر راستہ دینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں سیاسی جماعتوں کا خیال تبدیل ہوا ہے جیسا کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے انٹرویوز موجود ہیں جو کہتے تھے کہ قبل از وقت انتخابات ہوں، اصلاحات ہوں، نیب ترامیم ہوں مگر اب حکومت میں آنے کے بعد خیالات تبدیل ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب المیہ یہ ہوا ہے کہ حکومت نے جو وقت گزارا ہے اس سے عمران خان کی تمام کارکردگی پس پشت چلی گئی ہے اور اب کوئی سوال نہیں کر رہا کہ عمران خان نے نوکریاں اور گھر دینے کا کہا تھا، مگر اس کے برعکس سارا ملبہ ہم نے خود پر لیا جبکہ ضمنی انتخابات میں لوگوں نے عمران کا ساتھ دیا۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سیاست دانوں کو خوف کیوں ہے کہ عوام کے اندر نہ جائیں، کیا ان کو خوف ہے کہ عمران خان الیکشن جیت جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے نئے انتخابات کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ ملکی معشیت اس وقت مستحکم ہو سکتی ہے جب حکومت 5 سال کے لیے ہو، جس میں وہ مشکل فیصلے بھی کرے لیکن موجودہ حکومت وہ فیصلے نہیں کر رہی کیونکہ اس کو علم ہے کہ آگے انتخابات آنے والے ہیں۔

بلاول بھٹو کے سابق ترجمان نے کہا کہ اگلے انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ ہے کیونکہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی اور یہ بھی درست ہے کہ اتنا عرصہ پیپلز پارٹی نے برداشت کیا، اور کوئی برداشت نہیں کرتا۔

سینیٹ رکنیت سے استعفیٰ

خیال رہے کہ 8 نومبر کو پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا تھا کہ میں بخوشی سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہونے پر رضامند ہوں کیونکہ پارٹی کے سینئر رہنما نے مجھے بتایا کہ پارٹی کی قیادت میرے ’سیاسی مؤقف‘ سے خوش نہیں ہے۔

سماجی رابطے کے ویب سائٹ ٹؤئٹر پر جاری پیغام میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا تھا کہ آج پارٹی کے سینئر رہنما سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے پیغام دیا کہ پارٹی قیادت میرے مؤقف سے خوش نہیں ہے اور سینیٹ کی رکنیت سے میرا استعفیٰ چاہتی ہے، میں بخوشی مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔

ان نے مزید کہاتھا کہ بطور سیاسی کارکن مجھے عوامی مفاد کے معاملے پر اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے۔

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا تھا کہ پارٹی قیادت کا مشکور ہوں، جنہوں نے مجھے سندھ سے سینیٹ کی نشست دی، اختلافات اپنی جگہ، ان کے ساتھ سفر شان دار رہا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ میں کل چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو استعفیٰ پیش کروں گا۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی سینیٹر اعظم سواتی کے حوالے سے ایک نجی نوعیت کی مبینہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد انہوں نے 5 نومبر کو ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اعظم سواتی کا یہ کلپ چیئرمین سینیٹ اور تمام پارلیمان کے منہ پر طمانچہ ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بعد ازاں 6 نومبر کو اسی معاملے پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان مثبت عمل ہے لیکن اس کمیٹی کا حال بھی کیمرہ تحقیقاتی کمیٹی والا نہ ہو کہ دو سال گزرنے کے باوجود ایک اجلاس تک نہیں ہوا۔

بلاول بھٹو کی ترجمانی سے استعفیٰ

قبل ازیں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان کی حیثیت سے استعفیٰ دیا تھا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے چیئرمین کے ترجمان کی حیثت سے استعفیٰ دیا ہے پیپلزپارٹی سے نہیں۔

انہوں نے لکھا تھا کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہیں گے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میں نے بطور ترجمان ایمانداری، خلوص اور ملک اور پارٹی کے بہترین مفاد میں مشورے دیے۔

تبصرے (0) بند ہیں