گزشتہ مالی سال کے مقابلے رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 57 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اکتوبر کے 57 کروڑ ڈالر سے کم ہوکر نومبر میں 28 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا جس میں 51.5 فیصد کمی ہوئی۔

مجموعی طور پر جولائی سے نومبر کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نصف سے بھی زیادہ کم ہوکر 3 ارب 10 کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا جوگزشتہ سال اسی مدت کے دوران 7 ارب 20 کروڑ ڈالر تھا۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ درآمدات میں 4 ارب 80 کروڑ (16 فیصد) کمی کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی ہے جبکہ برآمدات کے اعدادوشمار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ درحقیقت 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک پہنچ کر 19 ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا جبکہ گزشتہ سال کے اسی ماہ کے دوران ایک ارب 92 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے مقابلے اس میں 86 فیصد تک کمی ہوئی۔

عارف حبیب لمیٹڈ میں ریسرچ کے سربراہ طاہر عباس نے بتایا کہ سالانہ بنیادوں پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ درآمدات میں سال بہ سال 32 فیصد کمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم سال بہ سال درآمدات میں 13 فیصد اور ترسیلات زر میں 14 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کا کریڈٹ لیا ہے لیکن تجزیہ کاروں نے اقتصادی ترقی میں کمی کی جانب نشاندہی کی ہے جس کا تخمینہ مالی سال 2023 کے لیے 2 فیصد لگایا گیا ہے جس کی وجہ خام مال اور مشینری کی درآمدات میں بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار میں گراوٹ ہے جبکہ غیر معمولی مہنگائی نے اشیا اور خدمات کو شدید متاثر کیا ہے۔

صنعتکاروں اور تاجروں نے ڈالر کی بچت نہ کر پانے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت متعدد ڈونر ایجنسیوں اور دوست ممالک سے ڈالر کی آمد میں ناکامی پر حکومت پر سخت تنقید کی۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں شدید کمی کے باوجود ضروری سامان اور خام مال کی درآمدات میں کمی کی وجہ سے ملک کے مرکزی برآمدی ٹیکسٹائل شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد طارق یوسف نے بیان میں خبردار کیا کہ لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) نہ کھولنے کی وجہ سے مجموعی طور پر صنعتی سرگرمیوں سمیت برآمدات پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کے باعث مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر بےروزگاری بڑھے گی۔

آپٹمس کیپیٹل کے ارسلان صدیقی نے کہا کہ جب تک سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آجاتا، مالی سال 23-2022 اور مستقبل میں زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھ رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام مالی سال 2023 کی تیسری سہ ماہی میں اہمیت کا حامل ہے جو میکرو استحکام پیدا کرے گا اور دیگر ذرائع سے بیرونی فنڈنگ کے مواقع بھی کھولے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ چینی ڈپازٹس اور قرضوں کا رول اوور اور سعودی عرب کی طرف سے تازہ فنڈز مالی سال 23-2022 میں بیرونی ضروریات میں مالی مدد کر سکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں