آن لائن بائیک سروسز: جڑواں شہروں میں سفر کیلئے مہنگائی سے ستائے عوام کی اولین ترجیح

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2022
میٹرو اسٹیشنز، تجارتی مراکز اور بڑے چوراہوں کے باہر ’بائیکا‘ ہیلمٹ پہنے رائیڈرز کھڑے نظر آتے ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار
میٹرو اسٹیشنز، تجارتی مراکز اور بڑے چوراہوں کے باہر ’بائیکا‘ ہیلمٹ پہنے رائیڈرز کھڑے نظر آتے ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار

ایندھن کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور کمر توڑ مہنگائی کے نتیجے میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں لوگوں نے روزمرہ کے سفر کے لیے کاروں اور ٹیکسیوں کے بجائے ’بائیکیا‘ اور ’اِن ڈرائیو‘ جیسی آن لائن بائیک سروسز پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’بائیکیا‘ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی ہے جو صارفین کو آن لائن بکنگ کی مدد سے بائیک کے ذریعے سفر کی سہولت فراہم کرتی ہے، جڑواں شہروں میں یہ سواری کے سب سے مقبول پلیٹ فارم میں سے ایک بن گیا ہے۔

جڑواں شہروں میں میٹرو اسٹیشنز، تجارتی مراکز اور بڑے چوراہوں کے باہر سبز رنگ کے ’بائیکا‘ ہیلمٹ پہنے رائیڈرز کھڑے نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے ٹیکسیوں کے کاروبار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

کچھ ٹیکسی ڈرائیور موٹر سائیکلوں کی اس بھرمار سے ناخوش بھی ہیں، ایک ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ ’لوگ ٹیکسی کی بجائے بائیک کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس کی قیمت کم ہے، آن لائن بائیک سروسز متعارف ہونے سے قبل ہم اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے روزانہ اچھی خاصی رقم کما لیتے تھے لیکن اب مسافر مشکل سے ملتے ہیں‘۔

کچھ لوگ اپنے آفس، یونیورسٹیوں اور اسکولوں تک جانے کے لیے ان بائیک سروسز کو ماہانہ بنیادوں پر استعمال کرتے ہیں، خواتین بھی منزل تک پہنچنے کے لیے یہ سروسز استعمال کرنے لگی ہیں جو کہ ایک نسبتاً نیا رجحان ہے۔

جی-9 مرکز سے آن لائن بائیک رائیڈ بُک کروانے والی نگہت بی بی نے بتایا کہ وہ جی-12 سے اپنے بچوں کے لیے کپڑے خریدنے وہاں آئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ’بائیک پر کسی اجنبی کے پیچھے بیٹھنا عجیب لگتا ہے لیکن اس مہنگائی کے دور میں ایسا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ٹیکسی استطاعت سے باہر ہوچکی ہے‘۔

سیکٹر ایف-11 کے قریب مہرآباد بستی میں رہنے والے کچھ گھریلو ملازمین نے کہا کہ وہ اپنے کام کی جگہوں تک پہنچنے کے لیے آن لائن بائیک سروس استعمال کرتے ہیں اور اسے نعمت سمجھتے ہیں۔

یہ آن لائن بائیک ہیلنگ سروسز سیکڑوں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر رہی ہیں جو اس کی بدولت کم از کم اجرت سے زیادہ کما رہے ہیں۔

اسلم خان نامی ایک موٹر سائیکل رائیڈر کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس سروس کا انتخاب کیا کیونکہ لوگ اسے تیزی سے قبول کر رہے ہیں، ایک رائیڈر کی یومیہ اوسط آمدن 2 ہزار روپے ہے لیکن بعض اوقات ہم ایک دن میں ڈھائی ہزار روپے بھی کما لیتے ہیں‘۔

آن لائن بائیک سروس کو آمدن کے اضافی ذریعے کے طور پر استعمال کرنے والے ایک رائیڈر عبداللطیف نے بتایا کہ ان کی یومیہ آمدن ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار روپے تک ہوجاتی ہے۔

یہ آن لائن بائیک سروسز محنت کش طبقے کو سفر کا ایک سستا ذریعہ فراہم کر رہی ہیں لیکن ٹریفک قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں کی وجہ سے یہ ٹریفک کے لیے شدید خطرہ بھی بن رہی ہیں۔

کئی بار ان موٹر سائیکل رائیڈرز کو بڑی شاہراہوں پر تیز رفتار لین میں بائیک دوڑاتے ہوئے دیکھا گیا جو اپنے مسافروں اور دیگر مسافروں سمیت اپنی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔

اس سروس کی مقبولیت کی وجہ سے بہت سے موٹر سائیکل سواروں نے متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ رجسٹر ہوئے بغیر یہ خدمات فراہم کرنا شروع کر دی ہیں، ان میں سے کچھ ’غیر رجسٹرڈ‘ موٹر سائیکل سوار مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔

راولپنڈی پولیس مبینہ طور پر اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ’غیر رجسٹرڈ بائیکیا رائیڈرز‘ کے گروہ کا پردہ فاش کرچکی ہے اور ان کے قبضے سے پنجاب بھر کے مختلف شہروں سے چوری کی گئی 20 موٹر سائیکلیں بھی برآمد ہوئیں۔   بائیکیا کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ کمپنی نے متعلقہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کو رجسٹرڈ رائیڈرز کے نام پر غیر رجسٹرڈ رائیڈرز کی بڑھتی تعداد کے بارے میں شکایات درج کرادی ہیں، لیکن اس کے باوجود غیر رجسٹرڈ رائیڈرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

آن لائن بائیک ہیلنگ سروسز کی مقبولیت اور اس کے نتیجے میں غیر رجسٹرڈ موٹر سائیکل رائیڈرز کی بڑھتی تعداد پولیس اور مقامی انتظامیہ کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔

ضروری ہے کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ ان غیر رجسٹرڈ بائیک رائیڈرز کی بڑی تعداد کو مذکورہ سروس فراہم کرنے والے ذمہ دار رائیڈرز میں تبدیل کرنے کے لیے کچھ بنیادی ضابطے طےکریں۔

تبصرے (0) بند ہیں