کپتان نے 16 دسمبر کو لاہور میں صحافیوں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بھی حسبِ معمول ٹکر چلے اور بریکنگ نیوز بھی۔ اسمبلیاں ٹوٹیں گی یا نہیں، اس پر وی لاگ بھی ہوئے۔ مگر اسی ملاقات میں کپتان نے کچھ ایسے جملے بھی کہے جو آف دی ریکارڈ تو نہیں تھے مگر اس کے باوجود وہ کہیں رپورٹ نہ ہوسکے۔ یعنی محض سیاست کے گرد گھومنے والی صحافت وہ جملے کھا پی گئی۔

کپتان نے کہا کہ آپ پتہ تو کریں کہ چمن بارڈر پر فائرنگ کیوں ہو رہی ہے۔ افغانستان میں ہمیں جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ایمن الظواہری کیسے؟ اچھا چھوڑیں اس کو رہنے دیتے ہیں۔ افغانستان کے بارڈر کی طرف چلتے ہیں۔

امریکی سینٹ کام کے چیف جنرل مائیکل ای کوریلا پاکستان پہنچے۔ انہوں نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا۔ وہ پشاور اور خیبر ایجنسی بھی گئے۔ اس دورے پر انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں کچھ یوں رپورٹ ہوا ہے کہ ’ٹی ٹی پی کی طرف سے درپیش خطرے پر امریکا کو تشویش ہے۔ ہم پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کی قدر کرتے ہیں۔ اپنا تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ بارڈر سیکیورٹی اور کاؤنٹر ٹیررازم پر ہمارے مفادات مشترک ہیں‘۔

دہشتگردی کے خطرے کے حوالے سے امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ ’اپنے جی ایچ کیو کے دورے کے دوران میں نے اس حوالے سے ٹی ٹی پی پر بات کی ہے۔ ہم نے اس پر غور کیا ہے کہ کیسے اس سے نمٹا جائے۔ میں نے پشاور میں گیارہوں کور ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا ہے، خیبر ایجنسی گیا ہوں، پاکستان فوج کی گیارہویں کور تقریباً آدھے افغان بارڈر کی نگران اور ذمہ دار ہے‘۔

افغانستان کے ساتھ اسپن بولدک اور چمن پر ہونی جھڑپوں اور فائرنگ پر امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ ’پُرامن اٖفغانستان سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔ ہم افغان طالبان کی حکومت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں اس کے بجائے وہ جو کرتے ہیں ہم اس کو دیکھ رہے ہیں‘۔

اب ذرا ایک ٹائم لائن ملاحظہ کریں۔ امریکی سینٹ کام چیف نے پاکستان کا دورہ 14 سے 16 دسمبر تک کیا۔ یعنی 14 کو وہ پاکستان پہنچے تھے۔

امریکی جنرل کے دورے سے ایک دن پہلے 13 دسمبر کو چینی حکومت نے افغانستان کے لیے ایک ٹریول ایڈوائزری جاری کی کہ تمام چینی باشندے افغانستان سے فوری نکل جائیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 12 دسمبر کو کابل میں ایک ریسٹورنٹ پر حملہ ہوا تھا۔ اس ریسٹورنٹ میں چینی باشندوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ اس حملے میں کم از کم 5 چینی باشندے شدید زخمی ہوئے۔ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ان سارے واقعات کی تفصیل آپ ایشیا نکئے پر پڑھ سکتے ہیں۔

چینی باشندوں پر حملے کے ساتھ ایک ستم ظریفی ملاحظہ کریں کہ اس حملے سے ایک دن پہلے چینی سفیر نائب افغان وزیرِ خارجہ شیر عباس ستانکزئی سے ملتے ہیں۔ جس میں افغانستان میں امن و امان کی صورتحال پر اظہارِ اطمینان کرتے ہیں۔ ستانکزئی ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ دونوں بھائی سچے پیار اور پکے قول قرار کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی کاپر مائن مس عینک پر کام کے آغاز کے لیے پُرجوش ہوجاتے ہیں۔

کابل سے 40 کلومیٹر دُور مس عینک کی اس سائٹ کا دورہ ملا برادر نے ایک بھاری وفد کے ساتھ نومبر میں کیا تھا۔ جس میں کان پر جلد کام شروع کرنے کی نوید سنائی تھی۔

اگر پڑھتے ہوئے یہاں تک آگئے ہیں تو اب انڈین نیوز ویب سائٹ کی صرف ہیڈلائن ملاحظہ کریں جو کہتی ہے کہ چینی باشندوں پر حملے کے بعد افغانستان کے لیے چینی منصوبے دھرے رہ گئے۔

یہ تو افغانستان سے متعلق امریکا چین اور کسی حد تک پاکستان کی دلچسپی کی باتیں ہیں۔ افغان طالبان کے اندر بھی بہت کچھ چل رہا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل دی پرنٹ انڈیا میں چھپی ہے۔

وہ رپورٹ بتاتی ہے کہ افغان وزیرِ دفاع ملا یعقوب کے طالبان امیر ملا ہبت اللہ سے اختلافات ہیں۔ وہ ان کی سخت گیر پالیسی کے خلاف ہیں۔ جب ملا ہبت اللہ امیر بنے تب بھی ملا یعقوب امارت کے سب سے مضبوط امیدوار تھے۔ وہ امیر بننے سے اس لیے رہ گئے کہ ایمن الظواہری نے تب ملا ہبت اللہ کی حمایت میں اپنا وزن ڈال دیا تھا۔ اب ایمن الظواہری مارے جاچکے ہیں۔ ملا یعقوب قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کرچکے ہیں۔ حامد کرزئی ان کے لیے راستے ہموار کر رہے ہیں۔ لیکن دی پرنٹ کے مطابق پاکستان ملا ہبت اللہ کا حمایتی ہے۔

افغانستان سے متعلق یہ ساری اندرونی بیرونی کشمکش ہم پر طرح طرح سے اثر ڈالتی ہے۔ چین امریکا دونوں سے ہمارے گہرے تعلقات ہیں۔ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا والی سائنس کے تحت جہاں افغانستان کی بات ہوگی ہمارا ذکر اس کے ساتھ ہی ہوگا۔

اب واپس آتے ہیں کپتان کی طرف۔ انہوں نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا آپ پتہ تو کریں کہ افغانستان میں کیا چل رہا ہے۔ ہمیں کسی لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ہمارے سب سے مقبول لیڈر کی بات جو ایسے مسئلے سے متعلق ہے جس کے ہم سب ہی متاثرین ہیں، اسے بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا۔

آپ نے یہ جو کچھ اوپر پڑھا ہے اس میں وہ سب جانیں سمجھیں جو نہیں لکھا گیا۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی مشکل اور چیلنج کا اندازہ کریں۔ یہ سوچیں کہ کپتان جو ہر بات بے دھڑک بولتا ہے وہ بھی اس صورتحال پر 4 جملے ہی کہہ پایا۔

یہ سب پڑھ کر آپ نے پریشان بالکل نہیں ہونا۔ صورتحال جب قابو سے ہوئی تو حوالدار بشیر 2، 3 ہیڈ کلرکوں کو فون کرے گا۔ پاکستان میں افغانوں کے کچھ جائز کاروباروں پر سختی آجائے گی۔ کچھ دفاتر اور کچھ نجی پراپرٹیاں سیل ہوں گی اور حالات پاکستان کے حق میں بہتر ہوجائیں گے۔ یہ نئی بات نہیں، ایسا ہوتا رہتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

عامر خان Dec 20, 2022 12:46pm
بہت عمدہ کالم ہے، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ دیا گیا۔ وسی بابا کی عالمی ایشوز خاص کر ریجنل معاملات میں گرفت اچھی ہے، وہ مختلف ٹکڑے جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بین السطور بھی لکھ سکتے ہیں۔ بہت عمدہ،ماشااللہ۔