اسمبلیاں تحلیل کرنا آئینی حق ہے، ملک کو دلدل سے نکالنے کا واحد حل شفاف انتخابات ہے، عمران خان

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2022
سابق وزیراعظم عمران خان خطاب کر رہے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیراعظم عمران خان خطاب کر رہے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے فوری طور پر شفاف انتخابات کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنا ان کا آئینی حق ہے۔

لاہور میں گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج کرنے والے کارکنان سے ویڈیولنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ ہم نے جلدی انتخابات کرانے کا اس لیے کہا کہ جس طرح یہ ملک تیزی سے نیچے جا رہا ہے تو سب کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے وزرا بار بار ہمیں چیلنج کرتے تھے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں اور اب ہم اسمبلیاں تحلیل کرنے جا رہے ہیں تو اعتماد کے لیے بھی ووٹ اور عدم اعتماد تحریک کے لیے بھی ووٹ لینا پڑ رہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جہاں آج ملک کھڑا ہے میں نے 70 سال کی عمر میں اس طرح ملک کو اندھیرے میں جاتے نہیں دیکھا۔

عمران خان نے کہا کہ 8 ماہ قبل ایک آدمی نے فیصلہ کرکے ملک پر جو ظلم کیا وہ کسی دشمن نے بھی نہیں کیا کیونکہ جو حکومت گرائی گئی تھی وہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقی کی شرح پر گامزن تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان اس لیے کیا کہ ہمیں خوف ہے کہ اگر ملک میں فوری انتخابات نہ کرائے گئے تو یہ ملک جس تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا ہے سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں تمام اداروں بشمول عدلیہ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریٹس سمیت سب سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عمران خان کی نہیں بلکہ ہم سب کی جنگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے جس طرح ہمارے ساتھ دشمنی کی، مجھے کبھی اس طرح احساس نہیں ہوا جس طرح کا سلوک ہماری پارٹی اور مجھ پر کیا گیا جیسا کہ میں ملک کا غدار اور دشمن ہوں۔

انہوں نے کہا کہ سروے کے مطابق 70 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملکی مسائل کا حل فوری انتخابات میں ہے لیکن ایک آدمی فیصلہ کر بیٹھا تھا کہ اس پارٹی کو ختم کرنا ہے اور کسی طرح عمران خان کو نااہل کروانا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جب پتا چلا کہ کوئی کیس بھی کام نہیں کر رہا تو مجھے راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا گیا۔

پی ٹی آئی سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں امید ختم ہوگئی ہے، لوگوں کو کوئی روشنی نظر نہیں آرہی کیونکہ ڈالر ختم ہوگئے ہیں، ملک قرضے ادا کرنے سے بھی قاصر ہے جبکہ برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں اور سمندر پاکستانیوں نے بھی ترسیلات زر بند کردی ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں دہشت گردی کم تھی اور افغان سرحد پر بھی باڑ لگائی گئی تھی اور جب افغانستان میں اقتدار تبدیل ہوا تو نئی حکومت سے بھی ہمارے اچھے تعلقات تھے جس کی وجہ سے لاکھوں افغان باشندے وہاں سے نکلے۔

عمران خان نے کہا کہ آج مالاکنڈ، بنوں اور وزیرستان میں دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے لیکن وزیر خارجہ بیرونی دوروں پر پونے دو ارب روپے خرچ کر چکے ہیں مگر ابھی تک افغانستان نہیں گئے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے اچھے تعلقات کی ضرورت ہے کیونکہ جتنے اچھے تعلقات ہوں گے دہشت گردی پر قابو پالیا جائے گا مگر تصاویر سامنے آ رہی ہیں کہ اربوں روپے خرچ کرکے جو باڑ لگایا وہ توڑا جا رہا ہے لیکن خارجہ پالیسی نظر نہیں آرہی۔

انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے ان چوروں کو ملک پر مسلط کرکے ان کو ہضم کرانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، آڈیوز اور وڈیوز لیک کرکے بچوں کے سامنے لائی گئیں اور سوشل میڈیا پرگند پھیلایا گیا تاکہ چوروں کو ہضم کرنے کے لیے ہمیں بلیک میل کیا جائے۔

عمران خان نے کہا کہ خیرپختونخوا حکومت کو پیسے نہیں دیے جا رہے مگر دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے، مزید کہا کہ قبائلی علاقوں کے لیے پیسے زیادہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہاں ترقیاتی کام نہ ہوئے تو دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ علاقے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہماری حکومت ہے اور ہم اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات کرانا چاہتے ہیں تو حکومت کو خوف کس بات کا ہے، اسمبلیاں تحلیل کرنا ہمارا آئینی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی صورت حال میں تمام کاروباری، معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ صرف شفاف انتخابات ہیں لیکن آصف زرداری اور نواز شریف اپنی ذات کے لیے انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت پر نہ تو بیرونی مالی اداروں اور ممالک کا اعمتاد ہے اور نہ ملک کے تاجروں اور سرمایہ کاروں کا لیکن دو چوروں نے اپنا این آر او بچانے کے لیے ملک کو گروی رکھا ہوا ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکنان گورنرہاؤس کے باہر احتجاج کر رہے تھے، جس کا مقصد گورنر بلیغ الرحمٰن کو وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدامات سے روکنا تھا۔

پی ٹی آئی کے کارکنان نے گورنر ہاؤس لاہور کے باہر احتجاج کے دوران گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کے خلاف شدید نعرے بازی کی جہاں پی ٹی آئی کا 100 میٹر طویل پرچم بھی ساتھ لے آئے تھے۔

گورنر ہاؤس کے باہر پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث تمام راستے بند کر دیے گئے اور سیکیورٹی بھی بڑھا دی گئی تھی۔

پی ٹی آئی کے رہنما حماد اظہر اور ڈاکٹر یاسمین راشد بھی گورنر ہاؤس کے باہر پہنچے اور حماد اظہر نے کہا کہ گورنر ہاؤس کو عوامی طاقت کے خوف سے سیل کردیا گیا ہے۔

حماد اظہر نے گزشتہ روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب اسمبلی کو ماورائے آئین مذاق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے مینڈیٹ کی توہین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے اراکین صوبائی اسمبلی کو ٹیلی فون آرہے ہیں، اس طرح زرداری راج کے پیسے پنجاب کے معاملات کے اندر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عوام اس پر خاموش نہیں رہیں گے، اس پر عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ کل گورنر ہاؤس کے سامنے زبردست اجتماع کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ کسی کو غیرآئینی اقدامات نہیں کرنے دیں گے اور عوام اپنے آپ کو دکھائیں گےکہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے 19 دسمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا تھا تاہم اسپیکر نے ان کے احکامات کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اجلاس جمعے تک ملتوی کردیا تھا۔

اسپیکر کی جانب سے اجلاس منعقد نہ کرنے پر گورنر کی سمری کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہوا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے بتایا تھا کہ اگر اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہوا تو پرویز الہٰی وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے اور گورنر ان کو ڈی نوٹیفائی کردیں گے۔

گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ اپنے پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے اراکین کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’چند ہفتے قبل پنجاب کے حکمران اتحاد پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری عہدیداروں کے تبادلوں کے حوالے سے سنگین اختلافات سامنے آئے تھے‘۔

گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ اختلافات کے حوالے سے حال ہی میں کابینہ کے ایک رکن کی جانب سے پرویزالہٰی کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد دیا جانے والا استعفیٰ ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ 4 دسمبر کو ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ مارچ 2023 تک صوبائی اسمبلی کہیں نہیں جارہی ہے جو پی ٹی آئی کے عوام کے سامنے موجود مؤقف کے بالکل برعکس ہے۔

گورنر بلیغ الرحمٰن نے کہا تھا کہ پرویز الہٰی کو اسمبلی میں اعتماد حاصل نہیں ہے اور اسی لیے اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے آئین کی شق 130(7) کے تحت 21 دسمبر کو شام 4 بجے طلب کرلیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں