ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے فیصلے کے خلاف پرویز الٰہی کا عدالت جانے کا اعلان

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2022
پرویز الٰہی نے اس پیش رفت کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ آج کو گورنر کے حکم کے خلاف عدالت جائیں گے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
پرویز الٰہی نے اس پیش رفت کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ آج کو گورنر کے حکم کے خلاف عدالت جائیں گے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمٰن نے جمعرات کو رات گئے معزول وزیر اعظم عمران خان کے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ڈی نوٹیفائی کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پرویز الٰہی نے اس پیش رفت کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ جمعہ کو (آج) گورنر کے حکم کے خلاف عدالت جائیں گے۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے بھی گورنر کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک سلیکٹڈ گورنر نے ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے بدھ کے روز تعینات کیے گئے پنجاب کے چیف سیکریٹری عبداللہ سنبل نے گورنر کے حکم کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کیا۔

گورنر اور چیف سیکریٹری کے نوٹیفیکیشن کے بعد پرویز الٰہی نے اپنی رہائش گاہ پر ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، اسپیکر سبطین خان، مونس الٰہی، وزیر قانون بشارت راجا اور کچھ دیگر سینئر رہنما موجود تھے تاکہ جمعہ کے لیے حکمت عملی کو حتمی شکل دی جا سکے۔

22 دسمبر کے اپنے حکم نامے میں گورنر نے کہا کہ چونکہ وزیر اعلیٰ نے مقررہ دن اور وقت پر اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کیا تھا، اس لیے انہیں عہدہ چھوڑنا ہو گا۔

تاہم انہوں نے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سے کہا کہ جب تک ان کا جانشین اس منصب پر نہیں آجاتا، اس وقت تک وہ چیف منسٹر کے طور پر کام جاری رکھیں۔

ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کو اپنی جانب کھینچنے میں ناکام رہے جس کے سبب گورنر کو پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی اجازت دی گئی۔

گورنر نے حکم نامے میں کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے قواعد و ضوابط 1997 کے رول 22(7) کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل 130(7) کے تحت 19دسمبر 2022 کو میری جانب سے جاری کیے گئے ایک حکم کے مطابق بدھ کی شام چار بجے اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کیا اور یہ کہ انہوں نے مزید 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود ابھی تک ایسا نہیں کیا، مجھے یہ اطمینان ہے کہ انہیں پنجاب کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے اور اس وجہ سے انہیں فوری طور پر یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ اس حکمنامے کے نتیجے میں صوبائی کابینہ فوری طور پر تحلیل ہو جاتی ہے۔

گورنر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 133 کے مطابق جب تک وزیر اعلیٰ کا جانشین نہیں آجاتا اس وقت تک پرویز الٰہی اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔

تاہم، اب یہ دیکھنا ہو گا کہ گورنر کی جانب سے رات گئے جاری کیا گیا حکمنامہ میدان میں ٹک پاتا ہے یا نہیں۔

اس سے پہلے دن میں حکمران اتحاد کی اہم بیٹھک ہوئی جس میں اس بات پر غور و فکر کیا گیا کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے چیف ایگزیکٹو کو گورنر کی ہدایت کو مدنظر رکھتے ہوئے آیا گورنر بلیغ الرحمٰن کو فوراً پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی اجازت دینی چاہیے یا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ق) کی جانب سے پیش قدمی تک انتظار کرنا چاہیے۔

اتحادی جماعتوں کا موقف تھا کہ انہیں وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کرکے گورنر کے حکم پر عمل درآمد کروانا چاہیے۔

ملاقات میں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، مسلم لیگ(ق) (شجاعت گروپ) کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ، پیپلز پارٹی سندھ کے وزیر ناصر حسین شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک احمد خان موجود تھے۔ اس حوالے سے گورنر بلیغ الرحمٰن اور مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے قانونی ماہرین سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔

زرداری کی کوششیں ناکام

ملاقات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے ایک اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے موڈ میں نہیں ہیں، یہ تحریک صرف وزیراعلیٰ کو اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے کے لیے لائی گئی تھی۔ اس وقت ہمارے پاس وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے لیے درکار 186 ووٹ نہیں ہیں اور پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کی مسلم لیگ (ق) کے کم از کم چھ ارکان اسمبلی کو منانے کی کوششیں ابھی تک ثمر آور نہیں ہوئی ہیں بلکہ وہ ناکام ہو چکے ہیں، اگر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کا فیصلہ کرتے ہیں تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی عطااللہ تارڑ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کو دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گورنر نے انہیں وزیراعلیٰ الٰہی کے اعتماد کے ووٹ سے متعلق حکم پر عمل درآمد کے لیے مزید کچھ وقت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ بالآخر عدالت میں جائے گا اس لیے گورنر احتیاط برت رہے تھے، اس سے قبل حکم پر عملدرآمد کے لیے اسپیکر کو 48 گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا چونکہ اسپیکر نے جمعرات تک وزیراعلیٰ پرویز الٰہی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے نہیں کہا، اس لیے گورنر نے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

پنجاب اسمبلی کا جاری اجلاس (آج) جمعہ کو ہوگا، اسپیکر سبطین خان نے منگل کے روز گورنر کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے حکم کو ’آئین اور ضابطوں‘ کے خلاف قرار دیتے ہوئے خارج کردیا تھا۔

قبل ازیں گورنر ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہ لینے کے سبب آئینی طور پر وزیر اعلیٰ نہیں رہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ گورنر کے حکم پر اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرنے پر وزیراعلیٰ پرویز الٰہی اب پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتے، میرے خیال میں گورنر کا وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم اب محض ایک رسمی کارروائی ہے۔

حمزہ کی ’پراسرار‘ غیر موجودگی

جہاں ایک طرف مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل کو روکنے کے لیے پیش قدمی میں مصروف ہیں، وہیں دوسری جانب ایوان میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی عدم موجودگی ایک پراسرار معمہ بنی ہوئی ہے۔

حمزہ شہباز نے ایک ہفتہ قبل لندن کا سفر کیا تھا اور اس صوبے میں عدم دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں جہاں ان کی پارٹی حکومت کرتی تھی۔

جولائی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پرویز الٰہی کے ہاتھوں شکست کے بعد سے حمزہ پارٹی کی کسی بھی سرگرمی سے دور ہیں، پارٹی کے اندر یہ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ ان کی کزن مریم نواز کی جانب سے مسلم لیگ(ن) کے امور میں ان کا کردار محدود کیا جا رہا ہے یا چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آنے والے ان کے بھائی سلیمان شہباز کو آنے والے دنوں میں پارٹی میں کوئی اہم عہدہ سونپا جا سکتا ہے۔

اگر ان کے پر کترے نہیں جا رہے تو مسلم لیگ(ن) کا گڑھ تصور کیے جانے والے پنجاب میں پارٹی کے لیے اس اہم وقت میں اپوزیشن لیڈر کی غیرسنجیدگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں