لاہور ہائیکورٹ: پرویز الہٰی اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی پر وزارت اعلیٰ پر بحال

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2022
چوہدری پرویزالہٰی نے ڈی نوٹیفائی کرنے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا — فوٹو: ٹوئٹر
چوہدری پرویزالہٰی نے ڈی نوٹیفائی کرنے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا — فوٹو: ٹوئٹر

لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الہٰی کو اگلی سماعت تک صوبائی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بحال کردیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے وقفے کے بعد سماعت شروع کی تو وکیل علی ظفر نے پرویز الہٰی کی جانب سے دی گئی انڈرٹیکنگ پڑھ کر سنائی۔

چوہدری پرویز الہٰی نے آئندہ سماعت تک اسمبلی نہ توڑنے کی تحریری انڈرٹیکنگ جمع کرا دی، جس میں کہا گیا کہ اگر مجھے بطور وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو بحال کر دیا جاتا ہے تو آئندہ سماعت تک گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری نہیں بھیجوں گا۔

عدالت میں گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ پرویز الہٰی کو تین سے چار دن میں اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا جائے اور اگر پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں تو گورنر ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹی فکیشن واپس لے لیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کے وکیل سے کہا کہ آپ بھی تحریری انڈرٹیکنگ دے دیں کہ گورنر نوٹی فکیشن واپس لے لیں گے، جس پر پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم نے نوٹی فکیشن کی لاقانونیت کو چیلنج کیا ہے۔

چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے تحریری انڈرٹیکنگ جمع کرائے جانے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم معطل کر تے ہوئے پرویز الہٰی کو بطور وزیر اعلی بحال کردیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند نہیں کرتے۔

لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب، اٹارنی جنرل سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کر دیے اور تمام فریقین کو 11 جنوری تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے 6 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ گورنر پنجاب کا 19 اور 22 دسمبر کو جاری کیے گئے احکامات اگلی سماعت تک معطل کیے جاتے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ فیصلے میں درخواست گزار کو اعتماد کا ووٹ لینے سے نہیں روکا گیا ہے۔

پرویزالہٰی کے صاحبزادے مونس الہٰی نے کمرہ عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور ہم اعتماد کا ووٹ لیں گے اور اسی دن اسمبلی بھی تحلیل کردیں گے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ ’اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ حتمی ہے، عمران خان کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد ہو گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’امپورٹڈ حکومت انتخابات سے بھاگنا چاہتی ہے، ہم امپورٹڈ حکومت کو عوام کے کٹہرے میں پیش کریں گے اور حتمی فیصلہ عوام کا ہو گا‘۔

پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کے ڈی نوٹی فکیشن کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عمل تو ہونا چاہیے۔

چوہدری پرویز الہٰی نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹی فائی کرنے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر سماعت کے لیے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

سماعت کے آغاز پر اپنے دلائل میں پرویز الہٰٰی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پرویز الہٰی 22 جولائی کو مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرکے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے 10 ووٹ نکال دیے، یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا اور سپریم کورٹ نے 27 جولائی کو ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ غلط قرار دیا اور کہا کہ وزیر اعلی پرویز الہٰی ہوں گے۔

علی ظفر نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے، 20 اراکین اسمبلی کے دستخط کے ساتھ تحریک جمع ہو سکتی ہے، وزیر اعلیٰ کو اسمبلی منتخب کرتی ہے، تعینات نہیں کیا جاتا، اگر گورنر سمجھے کہ وزیر اعلیٰ اکثریت کھو چکے ہیں تو وہ عدم اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں، عدم اعتماد کے لیے الگ سے سیشن بلایا جاتا ہے۔

پرویز الہٰی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ گورنر تحریک عدم اعتماد کے لیے دن اور وقت کا تعین نہیں کر سکتا، جب عدم اعتماد کے لیے 3 سے 7 روز کا وقت ہے تو اعتماد کے ووٹ کے لیے ایسا کیوں نہیں ہو سکتا، عدم اعتماد کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے کہ اراکین کو نوٹس دیتے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ رولز کے مطابق کیا اسی دن ووٹنگ نہیں ہو سکتی جس پر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کا اختیار ہے وہ ایک ہی دن نوٹس اور ووٹنگ کرا سکتا ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ ضروری ہے کہ اسپیکر ووٹنگ کے لیے دن مقرر کرے اور وزیر اعلیٰ کہے کہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیتا تو گورنر کوئی آرڈر پاس کر سکتے ہیں، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے اسپیکر کو خط لکھا، وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں کیا، اجلاس اسپیکر کو طلب کرنا ہے، وزیر اعلیٰ خود سیشن نہیں بلا سکتا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اجلاس ہوا ہی نہیں تو پھر گورنر نے خود سے کیسے فیصلہ کرلیا، اجلاس بلانے کے اختیارات اسپیکر کے پاس ہیں، یہ تو ایسے ہی ہے کہ دو افراد کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں سزا تیسرے کو دے دی جائے۔

اس موقع پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عمل درآمد تو ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ گورنر اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے یہ تو رولز میں ہے، اس پر علی ظفر نے کہا کہ عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے اسمبلی کا پروسیجر بھی ہے، اس پورے عمل کے لیے مناسب وقت دینا چاہیے، اگر کوئی سیشن ہی نہیں ہے تو وزیر اعلیٰ کہاں ووٹ لے گا۔

علی ظفر نے کہا کہ میڈیا پر خبر آئی کہ ایک وزیر کی پرویز الہٰی کے ساتھ تکرار ہوئی اور اس نے استعفیٰ دے دیا ہے، کہا گیا عمران خان نے بیان دیا کہ پرویز الہٰی کی کابینہ میں ایک اور وزیر کا اضافہ ہوا اور انہیں پتا ہی نہیں ان بنیادوں پر عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا کہا گیا، ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ بیان بھی میڈیا پر آیا۔

لارجر بینچ کے رکن جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ گورنر صاحب ٹی وی کون سا دیکھتے ہیں جس پر عدالت میں قہقہے لگے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں سیشن بلائے بغیر وزیر اعلیٰ کو ڈی سیٹ کر دیا گیا، یہ سارا عمل تو اب بھی ہو سکتا ہے، یہ سارا بحران حل ہو سکتا ہے اگر ووٹنگ کے لیے مناسب وقت دے دیا جائے۔

علی ظفر نے کہا کہ یہ تو تب ہو گا جب ڈی سیٹ کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم ہوگا، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہ ہم دیکھیں گے جو قانون کے مطابق ہوا فیصلہ کریں گے۔

وکیل نے کہا کہ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، صوبے میں کابینہ ہے اور مختلف منصوبے چل رہے ہیں، گورنر منتخب ہو کر نہیں آتا، جس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے احکامات میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگلے وزیر اعلیٰ تک کام جاری رکھیں گے۔

علی ظفر نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ رہے گا تو کابینہ بھی رہے گی، کابینہ کے بغیر وزیر اعلیٰ نہیں رہ سکتا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا اگر ہم نوٹی فکیشن معطل کر کے وزیر اعلیٰ کو بحال کر دیتے ہیں تو کیا امکانات ہیں کہ آپ لوگ اسمبلی تحلیل کر دیں گے، آپ منظور وٹو کیس نکال کر پڑھیں شاید ایسا پہلے ہو چکا ہے، علی ظفر نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس ہو چکی ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر آپ اسمبلی کی تحلیل سے متعلق انڈر ٹیکنگ دیتے ہیں تو پھر اس کو دیکھتے ہیں، علی ظفر صاحب آپ اپنے مؤکل سے ہدایات لے لیں ہم چند منٹ بعد دوبارہ بیٹھتے ہیں، عدالت نے کہا کہ اس بارے میں ہدایت لے کر آئیں کہ اعتماد کا ووٹ لینے تک اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی تحلیل نہ کرنے سے متعلق انڈر ٹیکنگ کے لیے مزید وقت درکار ہے، اگر عدالت پرویز الہٰی کو بحال کرتی ہے تو عدالت حکم جاری کر دے کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم ایسا آرڈر کیسے جاری کر سکتے ہیں، یا پھر ہم آپ کو عبوری ریلیف نہ دیں، ہمیں یہ لگ رہا تھا کہ آپ کہیں گے کہ اسمبلی کی تحلیل نہیں کریں گے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ ہم آئین کا مینڈیٹ معطل نہیں کر سکتے۔

عدالت نے اسمبلی کی تحلیل سے متعلق علی ظفر کو اپنے مؤکل سے مشاورت کے لیے مزید ایک گھنٹے کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں 6 بجے تک دوبارہ وقفہ کردیا تھا، جس کے بعد پرویز الہٰی کی جانب سے تحریری انڈر ٹیکنگ جمع کرائی گئی۔

جسٹس فاروق حیدر کی درخواست پر سماعت سے معذرت

جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ سے قبل بنایا گیا بینچ اس وقت تحلیل ہوگیا تھا جب جسٹس فاروق حیدر نے درخواست پر سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا تھا کہ جسٹس فاروق حیدر درخواست گزار کے وکیل رہ چکے ہیں، ہم نے کیس کی فائل نئے بینچ کے لیے چیف جسٹس امیر بھٹی کو بھجوا دی ہے، اس موقع پر پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا تھا کہ ہماری استدعا ہے کیس کو آج ہی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

بعد ازاں جسٹس عابد عزیز شیخ کی جانب سے بھیجی گئی درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ لارجر بیچ تشکیل دے دیا تھا، بینچ میں جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ کو شامل کیا گیا، دیگر ارکان میں جسٹس چوہدری محمد اقبال ، جسٹس مزمل اختر شبیر ، طارق سلیم شیخ شامل ہیں۔

گورنر پنجاب کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کا اقدام چیلنج

قبل ازیں چوہدری پرویز الہٰی نے گورنر پنجاب کی جانب سے خود کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹی فائی کرنے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ اسپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیر آئینی ہے۔

درخواست میں گورنر کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری اور چیف سیکریٹری فریق بنایا گیا تھا، درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ اسپیکر کو وزیر اعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ کے لیے اجلاس بلانے کا کہا تھا، اسمبلی کا اجلاس پہلے سے چل رہا ہے، اس لیے اسپیکر نے نیا اجلاس نہیں بلایا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اسپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیر آئینی ہے، اسپیکر کے کسی اقدام پر وزیر اعلیٰ کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔

درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ عدالت گورنر کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز رات گئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکامی پر وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کردیا تھا، گورنر نے رات گئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا آرڈر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کیا تھا۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے ڈی نوٹیفائی کرنے کے اپنے آرڈر میں کہا تھا کہ انہوں نے 19 دسمبر کو وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تھی۔

جاری حکم نامے کے مطابق ’21 دسمبر سہ پہر چار بجے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا، مگر 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود انہوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، لٰہذا آئین کے آرٹیکل 30 کے مطابق صوبائی کابینہ کو ختم کیا جاتا ہے‘۔

گورنر پنجاب کے جاری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’سابق وزیراعلٰی پرویز الہٰی نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب تک اپنا کام جاری رکھیں‘۔

حکم نامے کی ایک نقل چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی بھیجی گئی جس میں اس پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی گئی۔

عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد وفاق میں حکمران اتحاد کے رہنما پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے کے لیے حرکت میں آگئے تھے۔

20 دسمبر کو پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور اسٌپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی جب کہ ایک روز بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی سے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ بھی طلب کرلیا تھا۔

بعد ازاں اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے اپنے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے رولنگ جاری کی تھی اور کہا تھا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا غیر قانونی سمجھتا ہوں، ہم نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم نہیں کیا تھا بلکہ اسے ملتوی کیا تھا، پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس میں گورنر پنجاب اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہہ سکتے۔

گورنر پنجاب نے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کی جانب سے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے متعلق دی گئی رولنگ کو ’غیر آئینی‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار قرار دیا۔

وزیر اعلیٰ کو جاری کیے گئے گورنر کے احکامات پر قانونی ماہرین کی آرا مختلف اور منقسم نظر آئیں، تاہم وہ اس بات پر متفق تھے کہ پنجاب کے موجودہ بحران کے حل کے لیے قانونی جنگ ہی واحد راستہ دکھائی دیتی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris Dec 24, 2022 01:30am
The governor must resign for his failed efforts.